إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
انہیں جب ہماری آیات پڑھ کرسنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ اگلوں کی کہانیاں ہیں
اس لیے فرمایا : ﴿اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰـتُنَا﴾ ” جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں۔“ جو حق پر اور اس چیز کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں جس کو رسول لے کر آئے ہیں تو گناہوں کا ارتکاب کرنے والے نے ان آیات کو جھٹلایا اور ان سے عناد رکھا اور﴿ قَالَ﴾ کہنے لگا یہ تو ﴿اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ﴾ ” پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں ۔“یعنی وہ تکبر اور عناد کی بنا پر کہتا ہے کہ یہ تو متقدمین کے جھوٹے قصے اور گزری ہوئی قوموں کی خبریں ہیں ، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں۔ رہا وہ شخص جو انصاف پسند ہے اور اس کا مقصود بھی واضح حق ہے تو وہ قیامت کے دن کو نہیں جھٹلا سکتا ، کیونکہ اللہ تعالی ٰنے اس پر قطعی دلائل اور براہین قائم کیے ہیں جنہوں نے اسے حق الیقین بنا دیا ہے، ان کے دلوں کی بصیرت کے لیے یہ وہی حیثیت اختیار کر گیا ہے جو ان کی آنکھوں کے لیے سورج کی ہے ۔اس کے برعکس جس کے دل کو اس کے کسب نے زنگ آلود کردیا اور اس کے گناہوں نے اس کو ڈھانپ لیا ، وہ حق سے محجوب ہے ۔ بنا بریں اس کو یہ جزا دی گئی کہ جس طرح اس کا دل آیات الہٰی سے محجوب ہے، اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ سے محجوب رہے گا۔