سورة النسآء - آیت 88

فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(مسلمانو) تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو فریق بن گئے ہو؟ حالانکہ اللہ نے ان بدعملیوں کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی ہیں انہیں الٹآ دیا ہے (یعنی وہ راہ حق سے پھر چکے ہیں) کیا تم چاہتے ہو، ایسے لوگوں کو راہ دکھا دو جن پر خدا نے راہ گم کردی (یعنی جن پر خدا کے قانون سعادت و شقاوت کے بموجب ہدایت کی راہ بند ہوگئی ہے) اور (یاد رکھو) جس کسی پر اللہ راہ گم کردے (یعنی جس کسی پر اس کے قانون کا فیصلہ لگ جائے کہ اس کے لیے راہ پانا نہیں) تو پھر تم اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکال سکتے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ان آیات کریمہ میں مذکورہ منافقین سے مراد وہ منافقین ہیں جو اپنے اسلام کا اظہار کرتے تھے اور اپنے کفر کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہجرت بھی نہیں کی۔ [حاشیہ الف (یعنی ایک دوسرے نسخے کے حاشیے میں) میں یہ عبارت مذکور ہے کہ ’’صحیحین میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے لیے نکلے تو آپ کے ساتھ جانے والوں میں سے کچھ لوگ واپس ہوگئے۔ ان کے بارے میں صحابہ کرام کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم ان کو قتل کریں گے جبکہ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ ﴾ ” پس تمہیں کیا ہے کہ منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو رہے ہو“ (اس موقع پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” بے شک مدینہ پاک ہے اور بلاشبہ مدینہ بدطنیت افراد کو اس طرح نکال باہر کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کی میل کو دور کردیتی ہے۔“ اس اضافے کی جگہ پر دلالت کرنے والی کوئی علامت یہاں موجود نہیں۔ محقق پتہ نہیں اس سے فاضل محقق کا مطلب کیا ہے؟ ورنہ اس حدیث کی مناسبت تو آیت ﴿فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ ۔۔۔﴾ کے ساتھ بالکل واضح ہے، کیونکہ اس سے شان نزول کی وضاحت ہو رہی ہے۔ (ص۔ ی) ] ان کے بارے میں صحابہ کرام میں اشتباہ واقع ہوگیا، چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ان منافقین کے اظہار اسلام کے باعث ان کے ساتھ قتال اور قطع موالات میں حرج سمجھتے تھے اور بعض صحابہ کو چونکہ ان کے افعال کے قرینے سے ان کے احوال کا علم تھا اس لیے انہوں نے ان پر کفر کا حکم لگایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ کے بارے میں آگاہ فرمایا کہ تمہارے لیے مناسب نہیں کہ تم ان کے بارے میں کسی شک و شبہ میں مبتلا ہو، بلکہ ان کا معاملہ بالکل واضح ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں کہ وہ منافق ہیں۔ وہ اپنے کفر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ تم بھی کافر بن کر انہی کی مانند ہوجاؤ۔ پس جب تمہارے سامنے یہ حقیقت واضح ہوگئی