عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ
ترش رو ہوئے اور منہ پھیر لیا
ان آیات کریمہ کے نزول کا سبب یہ ہے کہ اہل ایمان میں سے ایک نابینا شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے کچھ پوچھنے اور سیکھنے کے لیے حاضر ہوا ۔ (مکہ مکرمہ کے)دولت مند لوگوں میں سے بھی ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر تھا ، آپ مخلوق کی ہدایت کے بہت حریص تھے ، چنانچہ آپ اس دولت مند شخص کی طرف مائل ہوئے اور اس کی طرف توجہ مبذول کی اور اس نابینا محتاج کی طرف توجہ نہ کی ، اس امید پر کہ وہ دولت مند شخص راہ ہدایت پالے اور اس کا تزکیہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے نہایت لطیف پیرائے میں آپ پر ناراضی کا اظہار کیا ،چنانچہ فرمایا : ﴿عَبَسَ﴾ یعنی آپ ترش رو ہوگئے ﴿ وَتَوَلّیٰٓ﴾ اور اپنے جسم کو موڑ لی، اس بنا پر کہ اندھا آپ کے پاس آیا ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نابینا شخص کی طرف توجہ دینے کا فائدہ بیان فرمایا : ﴿وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ﴾ ”اور تمہیں کیا خبر کہ شاید وہ۔“ یعنی نابیناشخص ﴿یَزَّکّیٰٓ﴾ اخلاق رذیلہ سے پاک اور اخلاق جمیلہ سے متصف ہونا چاہتا ہو؟