سورة النسآء - آیت 86

وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ بِتَحِيَّةٍ ﴾ کا لفظ دو ملاقاتیوں میں سے کسی ایک سے عزت و احترام نیز دعا اور بشاشت وغیرہ کے طور پر صادر ہوتا ہے۔ سلام و دعا کا بہترین طریقہ وہ ہے جو سلام کرنے اور اس کا جواب دینے کے بارے میں شریعت میں وارد ہوا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ جب انہیں کسی بھی طریقے سے سلام کیا جائے تو وہ الفاظ اور بشاشت کے اعتبار سے اس سے بہتر یا اسی طریقے سے سلام کا جواب دیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلام کا بالکل جواب نہ دینے یا کمتر طریقے سے جواب دینے سے روکا ہے۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی ترغیب ہے کہ سلام کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ (١) اللہ تعالیٰ نے سلام کا بہتر طریقے سے یا ویسا ہی جواب دینے کا حکم دیا ہے اور اس سے یہ امر لازم آتا ہے کہ سلام درحقیقت شرعاً مطلوب ہے۔ (٢) لفظ (اَحْسَنَ) سے جو کہ ” اَفْعَلُ التّفْضِیلُ “ ہے، جو چیز مستفاد ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ سالم اور اس کا جواب دونوں ” حسن“ میں شریک ہیں جیسا کہ اس بارے میں یہ چیز اصل ہے۔ آیت کریمہ کے عموم سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو کسی کو ایسے حال میں سلام کرتا ہے جس میں اسے سلام کرنے کا حکم نہ تھا۔ مثلاً کسی ایسے شخص کو سلام کرنا جو قراءت قرآن میں مشغول ہو، خطبہ سن رہا ہو یا نماز پڑھ رہا ہو۔ [لیکن شریعت نے ان حالتوں میں سلام کرنے سے کہاں منع کیا ہے؟ اس لیے فاضل مفسر کا ان مقامات کو مستثنیٰ کرنا بلا دلیل ہے۔ بلکہ یہ مقامات بھی سلام کرنے کے عموم میں داخل ہیں اور نماز کی حالت میں سلام کرنے کی اور اشارے کے ساتھ جواب دینے کی صراحت ترمذی کی حدیث میں موجود ہے۔ (ص۔ی)] کیونکہ وہ اپنے سلام کے جواب کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔ اسی طرح وہ شخص بھی آیت کریمہ کے عموم سے مستثنیٰ ہے جس سے قطع کلامی اور سلام نہ کرنے کا حکم شارع نے دیا ہو۔ یہ وہ نافرمان شخص ہے جس نے توبہ نہ کی ہو جو بول چال اور سلام کی بندش کی وجہ سے نافرمانیوں سے باز آجاتا ہے۔ پس ایسے شخص سے بول چال بند کردی جائے اسے سلام کیا جائے نہ سلام کا جواب دیا جائے۔ یہ سب کچھ بڑی مصلحت کے قیام کی خاطر ہے۔ سلام کا جواب دینے میں ہر قسم کے سلام کا جواب دینا شامل ہے جس کے لوگ عام طور پر عادی ہیں۔ ایسا کرنا شرعاً ممنوع نہیں، کیونکہ بندہ سلام کا جواب دینے اور اس سے بہتر جواب دینے پر مامور ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں پر ثواب کا وعدہ اور برائی کے کاموں پر وعید سنائی ہے۔ فرمایا : ﴿ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا  ﴾پس وہ اپنے بندوں کے اچھے برے اور چھوٹے بڑے تمام اعمال کا حساب رکھتا ہے پھر وہ اپنے فضل و عدل اور قابل تعریف فیصلے کے تقاضے کے مطابق ان کو جزا و سزا دے گا۔