سورة النسآء - آیت 84

فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنكِيلًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس (اے پیگمبر) تم اس بات کی بالکل پروا نہ کرو کہ یہ لوگ تمہارا ستاھ دیتے ہیں یا نہیں) تم اللہ کی راہ میں جنگ کرو، کہ تم پر تمہاری ذات کے سوا اور کسی کی زمہ داری نہیں اور مومنوں کو بھی جنگ کی ترگیب دو۔ عجب نہیں کہہ بہت جلد اللہ منکرین حق کا زور اور تشدد روک دے اور اللہ کا زور سب سے زیادہ قوی اور سزا دینے میں وہ سب سے زیادہ سخت ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

بندہ مومن کے احوال میں سے بہترین حال یہ ہے کہ جہاد وغیرہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں خود بھی کوشش کرے اور دوسروں کو بھی ترغیب دے۔ کبھی کبھی بندے میں کوئی ایک امر یا دونوں امور معدوم ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿ فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ﴾ ”آپ اللہ کی راہ میں لڑیں۔ آپ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں۔“ یعنی چونکہ آپ کو اپنی ذات کے سوا کسی دوسرے پر قدرت حاصل نہیں اس لیے آپ کو کسی دوسرے کے فعل کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔ ﴿وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” اور مومنوں کو بھی ترغیب دیں۔“ یعنی اہل ایمان کو قتال کی ترغیب دیں اور یہ ترغیب ان تمام امور کو بھی شامل ہے جس سے اہل ایمان کو نشاط، ان کے دلوں کو قوت اور ان کو طاقت حاصل ہوتی ہو۔ نیز یہ ترغیب اس بات کو بھی شامل ہے کہ دشمنوں کے ضعف اور کمزوری سے مومنوں کو آگاہ کیا جائے اور یہ ترغیب اس بات کو شامل ہے کہ مومنوں کو اس امر سے آگاہ کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کیلیے کیا ثواب تیار کر رکھا ہے اور جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنے والوں کے لیے کیا عذاب ہے۔ مذکورہ بالا اور اس قسم کے تمام امور جہاد اور قتال کی ترغیب کے زمرے میں آتے ہیں۔ ﴿عَسَى اللَّـهُ أَن يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾” قریب ہے کہ اللہ کافروں کی لڑائی کو بند کر دے۔“ یعنی ہوسکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں تمہارے جہاد اور جہاد کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کفار کو روک دے۔ ﴿وَاللَّـهُ أَشَدُّ بَأْسًا﴾ ” اور اللہ لڑائی کے اعتبار سے بہت سخت ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ زیادہ قوت اور غلبہ والا ہے ﴿وَأَشَدُّ تَنكِيلًا﴾” اور سزا کے لحاظ سے بھی بہت سخت ہے۔“ گناہ گار کو فی نفسہٖ سخت سزا دیتا ہے۔ جس سے دوسرے کو بھی عبرت ہوتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنی قوت کے ذریعے سے ہی کفار پر غالب آجائے اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے آزمائے تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے اور نفع مند ایمان حاصل ہو، یعنی اختیاری ایمان نہ کہ جبری اضطراری ایمان، جو کچھ بھی فائدہ نہیں دیتا۔