وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
اور ہم نے کوئی رسول اس کے سوا کسی اور مقصد کے لیے نہیں بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آکر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان پاتے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اوامر کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی ترغیب دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ انبیاء و رسل کو مبعوث کرنے کی غرض و غایت صرف یہی ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے اور جن کی طرف رسول بھیجا گیا ہے وہ اس کے تمام احکام کی تعمیل کریں، اس کے نواہی سے اجتناب کریں اور وہ اس کی ویسے ہی تعظیم کریں جیسے اطاعت کرنے والا مطاع کی تعظیم کرتا ہے۔ اس آیت میں عصمت انبیاء کا اثبات ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے، حکم دینے اور منع کرنے میں ہر لغزش سے پاک ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں کو انبیاء کرام کی مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے اگر وہ منصب تشریع میں خطا سے پاک نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کی مطلق اطاعت کا حکم نہ دیتا۔ ﴿بِإِذْنِ اللَّـهِ ﴾ ” اللہ کے فرمان کے مطابق۔“ یعنی اطاعت کرنے والے کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے صادر ہوتی ہے۔ پس اس آیت میں قضا و قدر کا اثبات ہے نیز اس میں اس امر کی ترغیب ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے نیز اس میں یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان اس وقت تک رسول کی اطاعت نہیں کرسکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم جود و کرم کا ذکر فرمایا ہے اور ان لوگوں کو دعوت دی ہے جن سے گناہ سرزد ہوئے کہ وہ اپنے گناہوں کا اعتراف کریں، توبہ کر کے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔ چنانچہ فرمایا : ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ ﴾ ” اور اگر یہ لوگ جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا آپ کے پاس آجاتے“ یعنی اپنے گناہوں کا اعتراف اور اقرار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے۔ ﴿ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ ” اور اللہ سے استغفار کرتے اور رسول ان کے لیے استغفار کرتا تو یقیناً یہ لوگ اللہ کو معاف کرنے والا مہربان پاتے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ ان کا ظلم بخش کر ان کی طرف پلٹ آتا۔ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر کے، توبہ کی توفیق اور اس پر ثواب عطا کر کے ان پر رحم فرماتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حاضری کا تعلق آپ کی زندگی کے ساتھ مختص تھا کیونکہ سیاق دلالت کرتا ہے کہ رسول کی طرف سے استغفار آپ کی زندگی ہی میں ہوسکتا ہے۔ آپ کی وفات کے بعد آپ سے کچھ نہ مانگا جائے، بلکہ یہ شرک ہے۔