وَذَرْنِي وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلًا
اور انہیں ان کے حال پر زیادہ نہیں تو تھورے دنوں کے لیے چھوڑ دو، پھر دیکھو کہ حق کے یہ جھٹلانے والے، جوطرح طرح کی خوشحالیوں اور دنیوی عزتوں میں اپنے تئیں پاکر بڑے ہی متکبر اور مغرور ہوگئے ہیں
فرمایا ﴿وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ﴾ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیجئے، میں ان سے انتقام لوں گا، میں نے اگرچہ ان کو مہلت دی ہے مگر میں ان کو مہمل نہیں چھوڑوں گا۔ ﴿اُولِی النَّعْمَۃِ﴾ یعنی نعمتوں سے بہرہ مند اور دولت مند لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے جب اپنے رزق سے فراخی عطا کی اور اپنے فضل سے ان کو نوازا تو انہوں نے سرکشی کارویہ اختیار کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰی﴾(العلق:96؍6،7)” ہرگز نہیں، انسان جب اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے تو سرکش ہوجاتا ہے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کی وعید سنائی جو اس کے پاس ہے،چنانچہ فرمایا: