يَا أَيُّهَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
اے اہل کتاب ! جو (قرآن) ہم نے اب نازل کیا ہے، جو تمہارے پاس پہلے سے موجود کتاب کی تصدیق بھی کرتا ہے، اس پر ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ ہم کچھ چہروں کو مٹا کر انہیں گدی جیسا بنا دیں، یا ان پر ایسی پھٹکار ڈال دیں جیسی پھٹکار ہم نے سبت والوں پر ڈالی تھی۔ (٣٤) اور اللہ کا حکم ہمیشہ پورا ہو کر رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو حکم دیتا ہے کہ وہ رسول اللہ اور اس قرآن عظیم پر ایمان لائیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے جو دوسری کتابوں کا نگہبان ہے۔ جن کی یہ تصدیق کرتا ہے ان کتابوں نے اس رسول کی خبر دی ہے۔ جب وہ امر واقع ہوگیا جس کے بارے میں خبر دی گئی تھی تو یہ چیز اس خبر کی تصدیق ہے، نیز اگر وہ اس قرآن پر ایمان نہیں لاتے تو گویا ان کا اپنی کتابوں پر بھی ایمان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کتابیں ایک دوسری کی تصدیق اور ایک دوسری کی تائید کرتی ہیں، اس لیے بعض کتابوں پر ایمان کا دعویٰ اور بعض پر ایمان نہ رکھنا، محض باطل دعویٰ ہے جس کی صداقت کا ہرگز امکان نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ آمِنُوا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُم ﴾” ہماری نازل کی ہوئی کتاب پر جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق کرتی ہے ایمان لے آؤ۔“ میں اہل کتاب کو ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے، نیز ان کے لیے مناسب یہ تھا، چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم اور کتاب عطا کی اس لیے وہ اس سبب سے دوسرے لوگوں سے آگے بڑھ کر اس کی طرف سبقت کرتے یہ علم اور کتاب دوسروں کی نسبت ان کے لیے زیادہ اس بات کے موجب ہیں کہ وہ آگے بڑھ کر ایمان لاتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے عدم ایمان کی وجہ سے ان کو وعید سنائی ہے۔ ﴿ مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوهًا فَنَرُدَّهَا عَلَىٰ أَدْبَارِهَا ﴾” اس پر اس سے پہلے (ایمان لے آؤ) کہ ہم چہرے بگاڑ دیں اور انہیں لوٹا کر پیٹھ کی طرف کردیں“ یہ جزا ان کے عمل ہی کی جنس میں سے ہے۔ چونکہ انہوں نے حق کو چھوڑ دیا، باطل کو ترجیح دی اور حقائق کو بدل ڈالا، باطل کو حق اور حق کو باطل بنا دیا، اس لیے ان کو ان کے اعمال ہی کی جنس سے سزا کی وعید سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دے۔ جس طرح انہوں نے حق کو بگاڑا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کے چہروں کو ان کی گدی کی طرف کردیا اور یہ بدترین حال ہے۔ ﴿أَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ ﴾ ” یا ان پر لعنت بھیجیں جیسے ہم نے ہفتے والوں پر لعنت کی“ بایں طور کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور انہیں سزا کے طور پر بندر بنا دے گا جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے ان بھائی بند لوگوں کو سزا دی تھی جنہوں نے ظلم و تعدی کے ساتھ سبت کے اصولوں سے تجاوز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ ﴾ (البقرہ :2؍65) ” پس ہم نے ان سے کہا بندر بن جاؤ دھتکارے ہوئے۔ “ ﴿وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴾ ” اور ہے اللہ تعالیٰ کا کام کیا ہوا“ یہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی مانند ہے ﴿إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴾ (یٰسین :36؍82) ” اللہ تعالیٰ کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہہ دیتا ہے ہوجا، پس وہ ہوجاتی ہے۔ “