سورة الملك - آیت 27

فَلَمَّا رَأَوْهُ زُلْفَةً سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَٰذَا الَّذِي كُنتُم بِهِ تَدَّعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پھر جب یہ اس کو (یعنی قیامت کو) قریب سے دیکھیں گے تو (مارے ہیبت کے) ان کافروں کے چہرے بگڑجائیں گے اور ان سے کہا جائے گا یہی وہ عذاب ہے جس کے لیے تم (پیہم) تقاضا کیا کرتے تھے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

کفار کی تکذیب اور اس بنا پر ان کے فریب کا محل ومقام اس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اس دنیا میں ہیں ،جب جزاوسزا کا دن ہوگا اور وہ عذاب کو ﴿ زُلْفَةً ﴾ اپنے قریب دیکھیں گے تو یہ انہیں بہت برا لگے گا اور انہیں خوف زدہ کردے گا، ان کے چہرے بدل جائیں گے، ان کی تکذیب پر انہیں زجر وتوبیخ کی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا:” یہ وہی ہے جس کی تم تکذیب کرتے تھے۔ آج تم نے اسے عیاں دیکھ لیا ہے اور تمام معاملہ تمہارے سامنے ظاہر ہوگیا ہے، تمہارے تمام اسباب منقطع ہوگئے ہیں اور اب عذاب بھگتنے کے سوا کچھ باقی نہیں۔ “ چونکہ رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھٹلانے والے جو آپ کی دعوت کو ٹھکراتے تھے، آپ کی ہلاکت اور آپ کے بارے میں گردش زمانہ کے منتظر تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان سے کہیں کہ اگر تمہاری آرزو پوری ہو بھی جائے اور اللہ تعالیٰ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ہلاک کردے تو یہ چیز تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ تم نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا اور تم عذاب کے مستحق بن گئے۔ پس اب تمہیں دردناک عذاب سے کون بچا سکتا ہے جس کا تم پر واقع ہونا حتمی ہے؟ تب میری ہلاکت کے بارے میں تمہاری مشقت اور حرص غیر مفید ہے اور وہ تمہارے کچھ کام نہیں آئے گی۔ انہوں نے اپنے اس قول کا۔۔۔کہ وہ ہدایت پر ہیں اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گمراہی پر ہیں۔۔ اعادہ کیا، اس کے اظہار میں جرأت دکھائی، اس پر جھگڑا اور لڑائی کی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ وہ اپنے حال اور آپ کی پیروی کرنے والوں کے حال سے آگاہ کردیں جس سے ہر شخص پر ان کی ہدایت اور تقوٰی واضح ہوجائے اور وہ یہ کہنے کا حکم تھا :﴿اٰ آمَنَّا بِهِ وَعَلَيْهِ تَوَكَّلْنَا﴾” ہم اس پر ایمان لائے اور ہم نے اس پر توکل کیا۔“ اور ایمان، باطنی تصدیق اور اعمال باطنہ وظاہرہ کو شامل ہے۔ چونکہ تمام اعمال کا وجود اور ان کا کمال توکل پر موقوف ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام اعمال میں سے توکل کا خاص طور پر ذکر کیا ورنہ توکل، ایمان اور اس کے جملہ لوازم میں داخل ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا: ﴿ وَعَلَى اللّٰـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ﴾( المائدۃ:5؍23)”اور اللہ ہی پر بھروسا کرو اگر تم مومن ہو۔“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کا یہ حال ہے جو آپ کی پیروی کرتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ ایسا حال ہے جو فلاح کے لیے متعین ہے اور جس پر سعادت موقوف ہے۔۔۔۔ اور آپ کے دشمنوں کا حال اس کے متضاد ہے، پس ان کے پاس ایمان ہے نہ توکل تب اس سے معلوم ہوگیا کہ کون ہدایت پر ہے اور کون کھلی گمراہی میں مبتلا ہے۔ پھر اللہ تبارک وتعالیٰ نے خبر دی کہ وہ نعمتیں عطا کرنے میں اکیلا اور متفرد ہے، خاص طور پر پانی کی نعمت جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کیا ،چنانچہ فرمایا :﴿ قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا﴾ ” کہو کہ بھلا دیکھو تو اگر تمہارا پانی خشک ہوجائے۔“ یعنی گہرا چلا جائے ﴿ فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ﴾ ” تو کون ہے جو تمہارے لیے شیریں پانی کا چشمہ بہالائے۔“ جس کو تم خود پیتے ہو، اپنے مویشیوں کو پلاتے ہو اور اپنے باغات اور کھیتوں کو سیراب کرتے ہو؟ یہ استفہام بمعنی نفی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اس پر قادر نہیں۔