سورة التغابن - آیت 16

فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لہذا جس قدر تم میں استطاعت ہو، اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور اسکاحکم سنو اور اطاعت بجالاؤ اور اپنے مال خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا اور جو لوگ نفسانی بخل سے محفوظ رہے بس وہی فلاح پانے والے لوگ ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ تقوے کا حکم دیتا ہے جو اس کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کرنے اور اس کے نواہی سے اجتناب کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو استطاعت اور قدرت سے مقید رکھا ہے ۔یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر وہ واجب جس کو ادا کرنے سے بندہ عاجز ہو، اس سے ساقط ہوجاتا ہے ۔اگر کچھ امور پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور کچھ پر قدرت نہیں رکھتا تو وہ انہی امور پر عمل کرے گا جن پر عمل کرنے کی وہ قدرت رکھتا ہے اور جن پر عمل کرنے سے عاجز ہے وہ اس سے ساقط ہوجائیں گے ۔جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِأَمْرٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ)(صحیح البخاری،الاعتصام،باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ‘ح:7288وصحیح مسلم ‘الحج باب فرض الحج مرۃ فی العمر‘ح:1337 ومسنداحمد:2؍428واللفظ له) ”جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو جتنی تم میں استطاعت ہے اس کے مطابق اس پر عمل کرو ۔“اس شرعی قاعدے میں اتنی زیادہ فروع داخل ہیں جن کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَاسْمَعُوا﴾ یعنی اللہ تعالیٰ جو تمہیں نصیحت کرتا ہے ور اس نے جو احکام تمہارے لیے مشروع کیے ہیں ان کو سنو، ان کو جان لو اور اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کردو ﴿وَأَطِيعُوا﴾ اور اپنے تمام معاملات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو﴿وَأَنفِقُوا ﴾ اور شرعی نفقات واجبہ اور مستحبہ ادا کرو، تمہارا یہ فعل ﴿خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ﴾ دنیا و آخرت میں تمہارے لیے بہتر ہوگا کیونکہ بھلائی تمام تر اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کرنے، اس کے نصائح کو قبول کرنے اور اس کی شریعت کے سامنے سرتسلیم خم کرنے میں ہے اور شر تمام تر اس کی مخالفت کرنے میں ہے۔ مگر وہاں ایک اور آفت بھی ہے جو بہت سے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں مامور بہ نفقات سے روکتی ہے اور وہ ہے بخل، جو اکثر نفوس کی جبلت ہے ۔نفس مال خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں ،اس کی موجودگی کو پسند کرتے ہیں اور مال کے ہاتھ سے نکلنے کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ ﴿ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ﴾ جس شخص کو اللہ نے اس کے نفس کے بخل سے بچالیا، یعنی اس کو مال خرچ کرنے کی توفیق عطا کردی جو اس کے لیے فائدہ مند ہے۔ ﴿فَاُولٰیِٕکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ”تو وہ لوگ فلاح پانے والےہیں“ کیونکہ انہوں نے مطلوب کو پالیا اور ڈرائے جانے والے امور سے نجات پائی۔ بلکہ شاید یہ ہر اس امر کو شامل ہے جس کا بندے کو حکم دیا گیا یا اس سے اس کو روکا گیا ہے کیونکہ اگر اس کا نفس بخیل ہے تو اس حکم کی اطاعت نہیں کرے گا جس کا اسے حکم دیا گیاہے اور مامور بہ نفقات کو ہاتھ سے نہیں نکالے گا تو اس نے فلاح نہیں پائی بلکہ دنیا وآخرت میں خسارے میں رہا ۔اگر اس کا نفس سخی ہے ،اللہ تعالیٰ کی شریعت پر انشراح کے ساتھ مطمئن اور اس کی رضا کا طلب گار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس فعل کے درمیان ،جس کا وہ مکلف کیا گیا ہے ،اس فعل کے علم، اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی معرفت اور اس چیز کی بصیرت کے سوا کچھ بھی نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کررہا ہے ،اس طریقے سے فلاح پائے گا اور تمام تر کامیابی سے بہرہ مند ہوگا۔