يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا
اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ، الا یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی ہو (تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ (٢٥) یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو باہم ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا ہے اور اس میں غصب کر کے مال کھانا، چوری کے ذریعے سے مال کھانا، جوئے کے ذریعے سے مال ہتھیانا اور دیگر ناجائز اور گھٹیا طریقوں سے مال حاصل کرنا، سب شامل ہے۔ بلکہ شاید اس میں آپ کا اپنا وہ مال کھانا بھی آجاتا ہے جو آپ تکبر اور اسراف سے کھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی باطل ہے، طریق حق نہیں ہے۔ پھر چونکہ اس نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا ہے اس لیے اس نے تجارت اور ایسے پیشوں کے ذریعے سے، جس میں کوئی شرعی ممانعت نہ ہو، اور جو باہم رضا مندی اور جائز شرائط پر مشتمل ہوں، مال کمانا مباح قرار دے دیا۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ﴾ ’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔“ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور نہ کوئی شخص اپنے آپ کو قتل کرے۔ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا اور ایسے خطرات مول لینا شامل ہیں جن کا نتیجہ ہلاکت اور اتلاف کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا﴾” کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔“ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے تمہاری جان اور مال کو محفوظ کیا، ان کو ضائع کرنے اور تلف کرنے سے منع کیا ہے اور اس کے لیے اسی طرح کی سزا تجویز کی جیسے دیگر جرائم پر حدود ہیں۔ ذرا اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم﴾ اور ﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ﴾ کے اختصار و ایجاز اور اس کی جامعیت پر غور فرمایئے کہ یہ ارشاد دوسروں کے مال اور خود اپنے مال، دوسروں کی جان اور خود اپنی جان کو شامل ہے اور ایسی عبارت کے ذریعے بیان کیا ہے جو (لَایَاْکُلُ بَعْضُکُمْ مَالَ بَعْضٍ) اور ﴿لَایَقْتُلُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ﴾سے زیادہ مختصر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مؤخر الذکر عبارت دوسروں کے مال اور دوسروں کے نفس کو شامل کرنے سے قاصر ہے۔ نیز جان اور مال کی عمومیت کے ساتھ تمام اہل ایمان کی طرف اضافت کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان باہم محبت کرنے، باہم رحم کرنے، باہم شفقت و عاطفت سے پیش آنے میں اور اپنے مشترک مصالح میں جسد واحد کی مانند ہیں۔ کیونکہ ان کے ایمان نے ان کو دینی اور دنیاوی مصالح پر جمع کردیا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا، کیونکہ دوسروں کا مال ہتھیانا اور کھانا ان کے لیے نقصان دہ تھا، تب مختلف قسم کے پیشوں کو، جن میں ان کی مصلحت تھی مثلاً تجارت، صنعت و حرفت اور اجارات وغیرہ کو، ان کے لیے مباح کردیا، اس لیے فرمایا : ﴿أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ﴾ ”اگر آپس کی رضا مندی سے تجارت کا لین دین ہوجائے تو وہ جائز ہے۔“ یعنی تجارت تمہارے لیے مباح ہے۔ تجارت ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی رضا مندی کی شرط اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تجارتی عقد سود پر مبنی نہ ہو کیونکہ سود تجارت نہیں ہے بلکہ سود تجارت کے مقاصد کے خلاف ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس تجارتی عقد کے دونوں فریق برضا و رغبت اسے قبول کریں اور کامل رضا و رغبت یہ ہے کہ جس معاملے پر معاہدہ کیا گیا ہے وہ پوری طرح معلوم ہو کیونکہ اگر وہ چیز جس پر معاہدہ کیا گیا ہے پوری طرح معلوم نہ ہوگی۔ تو یہ معاہدہ تسلیم و رضا مندی پر مبنی متصور نہ ہوگا کیونکہ جس چیز کا حصول انسان کی طاقت اور اختیار میں نہ ہو، جوا بازی ہے۔ اسی طرح دھوکے کی بیع اپنی تمام انواع سمیت باہمی رضا مندی سے خالی ہوتی ہے اس لیے ایسا معاہدہ منعقد نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ معاہدے قول و فعل کے ذریعے سے اظہار رضا مندی سے منعقد ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقد کے انعقاد کے لیے رضا مندی کی شرط عائد کی ہے اور رضا مندی کا اظہار جس طریقے سے بھی کیا جائے اس سے معاہدہ منعقد ہوجائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کا اختتام اس جملے پر کیا ہے ﴿إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴾” کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔“ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمہاری جان اور مال کو محفوظ و مامون کیا اور تمہیں جان و مال کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا۔