سورة الجمعة - آیت 11

وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا ۚ قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۚ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اس کے برعکس) جب انہوں نے تجارت یاکھیل تماشا ہوتے ہوئے دیکھا تو اس کی طرف لپک گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا ان سے کہہ دیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل تماشے اور تجارت سے بدرجہا بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے (٦)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا انْفَضُّوْٓا اِلَیْہَا﴾ جب وہ کوئی سودابکتا یا لہو و لعب دیکھتے ہیں تو اس لہو و لعب یا تجارت کی حرص میں مسجد سے باہر نکل جاتے ہیں اور بھلائی کو چھوڑ دیتے ہیں ﴿وَتَرَکُوْکَ قَایِٕمًا﴾ اور آپ لوگوں کو کھڑے خطاب کرتے رہ جاتے ہیں ۔یہ واقعہ جمعہ کے روز پیش آیا ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو (جمعہ کا)خطبہ دے رہے تھے کہ مدینہ منورہ میں ایک تجارتی قافلہ آیا۔ جب لوگوں نے مسجد میں قافلے کی آمد کے بارے میں سنا تو وہ مسجد سے نکل گئے اور ایک ایسا معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے چھوڑ دیا، جس کے لیے عجلت میں ادب کو ترک کرنا مناسب نہ تھا ۔﴿قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ ”کہہ دیجئے :جو اللہ کے پاس ہے ۔“یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس شخص کے لیے، جو بھلائی کا التزام کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت پر اپنے نفس کو صبر کا خوگر بناتا ہے، جو اجروثواب ہے۔ ﴿خَیْرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ﴾ وہ لہو ولعب اور اس تجارت سے بہتر ہے جس سے اگرچہ بعض مقاصد حاصل ہوتے ہیں تاہم وہ بہت قلیل، ختم ہونے والے رزق اور آخرت کی بھلائی کو فوت کردینے والے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر رزق کو فوت نہیں کرتا کیونکہ اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے، چنانچہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا۔ ان آیات کریمہ سے متعدد فوائد مستفاد ہوتے ہیں: ١۔ اہل ایمان پر جمعہ کی نماز فرض ہے ،اس میں شرکت کے لیے جلدی کرنا ،اس کے لیے کوشش کرنا اور اس کا اہتمام کرنا واجب ہے۔ ٢۔ ان آیات کریمہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمع کے دن دو خطبے فرض ہیں اور ان میں حاضر ہونا واجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر کی تفسیر دو خطبوں سے کی ہے اور اس کی طرف کوشش کے ساتھ جانے کا حکم دیا ہے۔ ٣۔ اس سورۃ مبارکہ سے مستفاد ہوتا ہے کہ جمعہ کی اذان کے بعد خریدوفروخت ممنوع اور حرام ہے اور یہ صرف اس وجہ سے تاکہ واجب سے غافل ہو کر خرید وفروخت میں مشغول ہونے سے واجب فوت نہ ہوجائے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر وہ کام جو اصل میں مباح ہو مگر جب اس سے کسی واجب کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو تو اس حال میں یہ کام جائز نہیں ہے۔ ٤۔ ان آیات کریمہ میں جمعہ کے دن دونوں خطبوں میں حاضر ہونے کا حکم ہے اور جو حاضر نہیں ہوتا اس کی مذمت مستفاد ہوتی ہے اور دونوں خطبوں میں خاموش رہنا اس کے لوازم میں شمار ہوتا ہے۔ ٥۔ وہ بندہ جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ ہوتا ہے، اس کے لیے مناسب ہے کہ وہ نفس کے لہو ولعب ،تجارت اور شہوات میں حاضر ہونے کےدواعی نفس کو وہ بھلائیاں یاد کرائے جو اللہ کے پاس ہیں ،جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو اس کی خواہشات پر ترجیح دیتی ہیں۔