سورة الصف - آیت 8

يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پیروان باطل چاہتے ہیں کہ حق وصداقت کاجونور الٰہی روشن کیا گیا ہے اسے اپنی مخالفت کی پھونک مار کر بجھا دیں، مگر وہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے اس نور صداقت کی روشنی کو درجہ کمال تک پہنچا کر چھوڑے گا اگرچہ باطل پرستوں کو بر الگے (٣)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: ﴿یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِــــُٔـوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ ﴾ ”وہ اپنے مونہوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں ۔“یعنی ان کی ان فاسد باتوں کی، جو ان سے صادر ہوتی ہیں اور جس کے ذریعے سے وہ حق کو ٹھکرانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی حقیقت نہیں ،بلکہ یہ اس باطل کے بارے میں صاحب بصیرت کی بصیرت میں اضافہ کرتی ہیں جن میں وہ سرگرداں ہیں ﴿ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ﴾ ”اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔ “یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی نصرت، حق کی تکمیل جس کے ساتھ اس نے اپنے رسول بھیجے اور تمام دنیا میں اپنے نور کو ظاہر کرنے کا ذمہ لیا ہے، خواہ کافروں کو یہ بات ناگواری ہی کیوں نہ گزرے اور اس ناگواری کے سبب سے وہ اپنی پوری کوشش کرلیں جس پر وہ قدرت رکھتے ہوں اور جس کو وہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھانے کا وسیلہ بنا سکتے ہوں ،پس وہ مغلوب ہی ہوں گے ۔ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو سورج کی روشنی کو بجھانے کے لیے اپنے منہ سے پھونکیں مارے، چنانچہ انہوں نے اپنی مراد پائی نہ ان کی عقل نقص اور جرح وقدح سے سلامت ہے۔