سورة النسآء - آیت 26

يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے (احکام کی) وضاحت کردے، اور جو (نیک) لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں، تم کو ان کے طور طریقوں پر لے آئے، اور تم پر ( رحمت کے ساتھ) توجہ فرمائے، اور اللہ ہر بات کا جاننے والا بھی ہے، حکمت والا بھی ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی عظیم نوازش، بہت بڑے فضل و کرم اور اپنے مومن بندوں کی حسن تربیت اور دین کی سہولت سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتا ہے : ﴿ يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ﴾” اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے بیان کرے۔“ یعنی حق و باطل اور حلال و حرام میں سے جس جس چیز کی توضیح کے تم محتاج ہو اللہ تعالیٰ اسے کھول کھول کر بیان کرتا ہے ﴿وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ﴾ اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کا راستہ دکھاتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا یعنی انبیائے کرام اور ان کے متبعین کی سیرت حمیدہ، ان کے افعال صالحہ، ان کی عادات کاملہ اور ان کی توفیق تام کا راستہ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جو ارادہ فرمایا اسے نافذ کیا، تمہارے سامنے اسے پوری طرح واضح کردیا جیسے تم سے پہلے لوگوں پر اسے پوری طرح واضح کردیا تھا اور تمہیں علم و عمل میں عظیم ہدایت سے نوازا ﴿وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ﴾ ” اور رجوع کرے تم پر“ یعنی اللہ تم پر تمہارے تمام احوال میں اور تمہارے لیے بنائی ہوئی شریعت میں اپنے لطف و کرم کا فیضان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ تمہارے لیے ان حدود پر ٹھہرناممکن ہوجاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہیں اور تم اسی پر اکتفا کرتے ہو جو اس نے تمہارے لیے حلال ٹھہرایا ہے۔ پس اس آسانی کے باعث جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے پیدا کی ہے، تمہارے گناہ کم ہوجاتے ہیں، پس یہ اللہ کا اپنے بندے کی طرف توبہ کے ساتھ پلٹنا ہے۔ نیز اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنے بندوں کی طرف توبہ کے ساتھ پلٹنا یہ بھی ہے کہ جب ان سے گناہ کا ارتکاب ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے اور ان کے دلوں میں انابت اور تذلل الہام کردیتا ہے، پھر وہ توبہ کو قبول کرتا ہے جس کی توفیق اس نے خود عطا کی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد و ثناء ہے۔ ﴿وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ﴾” اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔“ یعنی وہ کامل حکمت والا ہے یہ اس کے علم ہی کا حصہ ہے کہ اس نے تمہیں اس چیز کی تعلیم دی جس کا تمہیں علم نہیں تھا۔ یہ اشیاء اور یہ حدود اسی زمرے میں آتی ہیں اور اس کی حکمت کے حصے سے یہ ہے کہ وہ اس بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جس کی توبہ قبول کرنے کا تقاضا اس کی حکمت اور رحمت کرتی ہے اور اس بندے کو چھوڑ کر اس سے علیحدہ و جاتا ہے جس کو اپنے حال پر چھوڑ دینا اس کی حکمت اور عدل تقاضا کرتا ہے اور جو توبہ کی قبولیت کا اہل نہیں ہوتا۔