سورة الحديد - آیت 20

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

خوب جان لو کہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور دل لگی، اور ظاہری آرائش اور تمہارا ایک دوسرے پر فخر جتانا اور اموال واولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کہ اس سے پیدا ہونے والی نباتات کاشتکاروں کو خوش لگتی ہے پھر وہ پک جاتی ہے اور تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد ہوگئی پھر وہ چوراچورا ہوجاتی ہے اور آخرت میں تو سخت عذاب ہے، اور (یا پھر ) اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی رضامندی ہے اور دنیا کی زندگی تو محض ایک سرمایہ فریب ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا اور ان امور کے بارے میں آگاہ فرماتا ہے جن پر دنیا کا دارومدار ہے، نیز دنیا اور دنیا والوں کی غایت و انتہا بیان فرماتا ہے ۔دنیا بس لہو ولعب ہے جس کے ساتھ بدن کھیلتے ہیں اور اس کی وجہ سے قلب غافل ہوتے ہیں۔ جو کچھ دنیا میں موجود ہے اور ابنائے دنیا سے جو کچھ واقع ہوتا ہے وہ اس کا مصداق ہے۔ آپ ابنائے دنیا کو پائیں گے کہ انہوں نے اپنی عمر کے اوقات کو غفلت قلب میں صرف کیا اور وہ ذکر الہٰی اور آئندہ پیش آنے والے وعد و وعید سے غافل رہے، آپ اہل بیدار اور آخرت کے لیے عمل کرنے والوں کو ان کے برعکس دیکھیں گے کیونکہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس کی معرفت اور اس کی محبت سے معمور ہیں۔ وہ اپنے اوقات کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے والے ایسے اعمال میں صرف کرتے ہیں جن کا فائدہ ان کو پہنچتا ہے اور دوسروں کو بھی پہنچتا ہے۔ اور فرمایا : ﴿وَّزِیْنَۃٌ﴾ یعنی لباس، مشروبات، سواریوں، گھروں، محلات اور دنیاوی جاہ وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا ہے۔ ﴿وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ﴾ ’’اور آپس میں فخر کرنا ہے۔‘‘ یعنی ان چیزوں کو رکھنے کے لیے ہر شخص دوسرے پر فخر کا اظہار کرنا چاہتا ہےاور وہ چاہتا ہے کہ ان امور میں وہی غالب رہے اور ان احوال میں بس اسی کو شہرت حاصل رہے۔ ﴿وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ﴾ یعنی ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ وہ مال اور اولاد میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔ دنیا سے محبت کرنے والے اور اس پر مطمئن رہنے والے اس کا مصداق ہیں۔ اس کے برعکس وہ شخص جو دنیا اور اس کی حقیقت کو جانتا ہے، وہ اسے مستقل ٹھکانا نہیں بناتا بلکہ اسے گزرگاہ خیال کرتا ہے، وہ ایسے اعمال میں سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں اور ایسے وسائل اختیار کرتا ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے اکرام و تکریم کے گھر تک پہنچاتے ہیں۔ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھتا ہے جو اس کے ساتھ دنیا، مال و متاع اور اولاد کی کثرت میں مقابلہ کرتا ہے تو یہ اعمال صالحہ میں اس کا مقابلہ کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس دنیائے فانی کے لیے بارش کی مثال دی ہے، جو زمین پر برستی ہے اور اس کی نباتات کو سیراب کرتی ہے جس سے لوگ اور مویشی اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں، یہاں تک کہ جب زمین پوری طرح لہلہانے لگتی ہے اور اس کی نباتات کفار کو بھلی لگتی ہیں جن کی نظر وہمت صرف دنیا ہی پر مرکوز ہوتی ہے تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آجاتا ہے جو انہیں ہلاک کردیتا ہے۔ یہ نباتات خشک ہو کر اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ جاتی ہیں، گویا کہ وہاں کبھی ہریالی اگی تھی نہ وہاں کبھی کوئی خوبصورت منظر ہی دیکھا گیا تھا، یہی حال اس دنیا کا ہے، یہ اپنے چاہنے والے کے لیے نہایت خوش نما اور خوبصورت ہوتی ہے وہ جب بھی اس دنیا سے اپنا مطلوب حاصل کرنا چاہتا ہے، حاصل کرلیتا ہے، اور جب بھی وہ کسی دنیاوی معاملے کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے دروازوں کو کھلا ہوا پاتا ہے۔ جب تقدیر نے اس کو آلیا اور اس سے وہ سب کچھ چھین لیا جو اس کے ہاتھ میں تھا اور اس پر سے اس کے تسلط کو زائل کردیا، یا اسے خوشنما دنیا سے دور کردیا تو وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ روانہ ہوا اور کفن کے سوا اس کے پاس کوئی زادراہ نہ تھا، پس ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جس کی آرزو کی انتہا یہ دنیا ہے اور اسی کے لیے اس کے اعمال اور اس کی بھاگ دوڑ تھی۔ رہا وہ عمل جو آخرت کے لیے کیا جاتا ہے تو یہ وہی عمل ہے جو فائدہ دیتا ہے اور عمل کرنے والے کے لیے ذخیرہ کردیا جاتا ہے اور ہمیشہ بندے کے ساتھ رہتا ہے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَفِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانٌ﴾ ’’اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی مغفرت اور رضا مندی ہے۔ ‘‘ یعنی آخرت کا حال ان دو امور سے خالی نہیں۔ اولا تو اس شخص کے لیے جہنم کی آگ میں سخت عذاب، جہنم کی بیڑیاں اور زنجیریں اور اس کی ہولناکیاں ہوں گی جس کی غایت مقصود اور منتہائے مطلوب محض دنیا ہے۔ پس وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جسارت کرتا ہے، آیات الہٰی کو جھٹلاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناسپاسی کرتا ہے۔ ثانیا : یا اس شخص کے لیے گناہوں کی بخشش، عقوبتوں کا ازالہ اور دار رضوان میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگی، یہ سب اس شخص کے لیے ہے جس نے دنیا کی حقیقت کو پہچان لیا اور آخرت کے لیے بھرپور کوشش کی۔ یہ سب کچھ دنیا میں زہد اور آخرت میں رغبت کی دعوت دیتا ہے ،اس لیے فرمایا : ﴿وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾ ’’اور دنیا کی زندگی تو محض متاع فریب ہے۔ ‘‘ یعنی یہ صرف ایسی متاع ہے جس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اس سے ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں، اس کی وجہ سے فریب میں صرف وہی لوگ مبتلا ہوتے اور اس پر مطمئن رہتے ہیں جو ضعیف العقل ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو مغفرت ،رضا اور جنت کی طرف مسابقت کا حکم دیا ہے اور یہ چیز مغفرت کے اسباب کے لیے کوشش کرنے، یعنی خالص توبہ اور نفع مند استغفار کرنے، گناہ اور گناہ کے اسباب سے دور رہنے ہی سے ممکن ہے، نیز عمل صالح کے ذریعے سے اللہ کی رضا کی طرف سبقت اور ان امور پر دوام کی حرص کرنے سے ممکن ہے جن پر اللہ تعالیٰ راضی ہے، یعنی خالق کی عبادت میں احسان اور مخلوق کو ہر لحاظ سے فائدہ پہنچا کر ان کے ساتھ حسن سلوک کے ذریعے ہی سے یہ چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان اعمال کا ذکر فرمایا جو اس کے موجب ہیں۔ چنانچہ فرمایا :