سورة النسآء - آیت 9

وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور وہ لوگ (یتیموں کے مال میں خرد برد کرنے سے) ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور بچے چھوڑ کر جائیں تو ان کی طرف سے فکر مند رہیں گے۔ (٩) لہذا وہ اللہ سے ڈریں اور سیدھی سیدھی بات کہا کریں۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد اس شخص کے لیے ہے جو کسی قریب المرگ شخص کے پاس موجود ہو اور مرنے والا اپنی وصیت میں ظلم اور گناہ کا مرتکب ہو رہا ہو۔ تو وہ اس شخص کو اس کی وصیت میں عدل و انصاف اور مساوات کی تلقین کرے اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے﴿وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا  ﴾ یعنی ان سے درست بات کہو جو انصاف اور معروف کے موافق ہو۔ وہ ان لوگوں کو، جو اپنی اولاد کے بارے میں وصیت کرنا چاہتے ہیں، ان کی اولاد کے بارے میں ایسی تلقین کریں جو وہ خود اپنے بعد اپنی اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد بے سمجھ یعنی پاگل، کم سن اور کمزور لوگوں کے سرپرست ہیں۔ ان کو حکم ہے کہ وہ ان بے سمجھ لوگوں کے دینی اور دنیاوی مفادات کا ایسا انتظام کریں جو وہ اپنے مرنے کے بعد اپنی کمزور اور بے سمجھ اولاد کے بارے میں پسند کرتے ہیں۔ ﴿فَلْيَتَّقُوا اللَّـهَ  ﴾ وہ دوسروں کی سرپرستی کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں یعنی وہ ان کے ساتھ ایسا معاملہ کریں جو تقویٰ پر مبنی ہو جس میں ان لوگوں کی اہانت نہ ہو جو ان کی سرپرستی میں ہیں، ان کی دیکھ بھال کریں اور ان سے تقویٰ کا التزام کروائیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے یتیموں کے مال کی دیکھ بھال کا حکم دیا تو اب ان کو یتیموں کا مال کھانے پر زجر و توبیخ کی ہے اور اس پر سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔