وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
اور اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے بارے میں انصاف سے کام نہیں لے سکو گے تو (ان سے نکاح کرنے کے بجائے) دوسری عورتوں میں سے کسی سے نکاح کرلو جو تمہیں پسند آئیں (٣) دو دو سے، تین تین سے، اور چار چار سے، (٤) ہاں ! اگر تمہیں یہ خطرہ ہو کہ تم ( ان بیویوں) کے درمیان انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی بیوی پر اکتفا کرو، یا ان کنیزوں پر جو تمہاری ملکیت میں ہیں۔ اس طریقے میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی میں مبتلا نہیں ہوگے۔
یعنی اگر تمہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ تم ان یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہیں کرسکو گے جو تمہاری پرورش اور سرپرستی میں ہیں اور تمہیں ڈر ہے کہ ان کے ساتھ تمہاری محبت نہ ہونے کی وجہ سے تم ان کے حقوق ادا نہ کرسکو گے۔ تو تم ان کے علاوہ دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرلو﴿مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ ﴾” عورتوں میں سے جو تمہیں اچھی لگیں“ یعنی، دین، مال، حسب و نسب اور حسن و جمال جیسی دیگر صفات جو نکاح کی ترغیب دیتی ہیں، ان صفات کی حامل عورتوں میں سے جس کے ساتھ نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہو، اپنی خواہش اور صوابدید کے مطابق نکاح کرلو۔ نکاح کے انتخاب کے لیے بہترین صفت دین ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” عورت سے چار صفات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، اس کے مال، اس کے حسن و جمال، اس کے حسب و نسب اور اس کے دین کی وجہ سے، تیرے ہاتھ خاک آلودہ ہوں، تو دین دار عورت سے نکاح کرنے کی کوشش کر۔“ [صحيح البخاري، النكاح، باب الأكفاء في الدين، ح: 509 و صحيح مسلم، النكاح، باب استحباب.... ح: 1466] اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ نکاح سے قبل عورت کو منتخب کرلے۔ بلکہ شارع نے تو یہاں تک مباح کیا ہے کہ انسان جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اسے ایک نظر دیکھ لے تاکہ یہ نکاح بصیرت کی بنیاد پر ہو پھر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تعداد کا ذکر کیا ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا مباح ہے، چنانچہ فرمایا:﴿ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ﴾ ” دو دو تین تین اور چار چار“ یعنی جو کوئی دو بیویاں رکھنا چاہتا ہے وہ دو دو بیویاں رکھ لے اگر تین بیویوں سے یا چار بیویوں سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو تین یا چار سے نکاح کرلے۔ البتہ چار سے زیادہ عورتوں سے نکاح نہ کرے کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق اللہ تعالیٰ کے احسان کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے جو عدد مقرر کردیا ہے بالاتفاق اس سے زیادہ بیویاں جائز نہیں۔ ایک سے زیادہ بیوی کی اجازت کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات مرد کی شہوت ایک بیوی سے پوری نہیں ہوتی اس لیے یکے بعد دیگرے چار بیویاں جائز ہیں کیونکہ شاذ و نادر صورت کے سوا، چار بیویاں کافی ہوتی ہیں۔ یہ چار بیویاں بھی مرد کے لیے صرف اس وقت جائز ہیں جب وہ ظلم وجور کرنے سے محفوظ ہوا اور اسے یقین ہو کہ وہ چار بیویوں کے حقوق پورے کرسکے گا اور اسے ظلم و زیادتی اور حقوق کی عدم ادائیگی کا خدشہ ہو تو اسے صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنا چاہئے۔ یا اس کے ساتھ لونڈیوں پر اکتفا کرے۔ لونڈیوں میں وظیفہ زن و شو کی مساوی تقسیم واجب نہیں۔ ﴿ذٰلِکَ﴾ ” یہ“ یعنی ایک بیوی یا لونڈیوں پر اکتفا کرنا﴿أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا﴾ ” اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ تم ظلم نہ کرو۔“ اس آیت کریمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ا گر بندے کو کوئی ایسا معاملہ پیش آجائے جہاں اسے ظلم و جور کے ارتکاب کا خدشہ ہو اور اسے اس بات کا خوف ہو کہ وہ اس معاملے کے حقوق پورے نہیں کرسکے گا۔ خواہ یہ معاملہ مباحات کے زمرے میں کیوں نہ آتا ہو تو اس کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی تعرض کرے۔ بلکہ وہ اس میں بچاؤ اور عافیت کا التزام کرے۔ کیونکہ عافیت بہترین چیز ہے جو بندے کو عطا کی گئی ہے۔