سورة الرحمن - آیت 33

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے مجمع جن وانس اگر تمہاری طاقت میں ہے کہ زمین اور آسمانوں کے مدبرات وملکوت کے اندر سے اپنی راہ پیدا کرکے آگے نکل جاؤ تو ترقی کی اس انتہا کے لیے بھی کوشش کردیکھو، مگر بغیر سلطان الٰہی کے کچھ بھی نہ کرسکو گے اور یاد رکھو کہ وہ قوت تمہارے بس میں نہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

جب اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے روز جمع کرے گا تو انہیں ان کی کمزوری وبے بسی اور اپنی کامل طاقت اپنی مشیت اور قدرت کی تنفیذ سے آگاہ کرے گا اور ان کی بے بسی کو ظاہر کرتے ہوئے فرمائے گا: ﴿یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ یعنی اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! اگر تمہیں کوئی راستہ اور کوئی سوراخ ملتا ہے جہاں سے تم اللہ کی بادشاہی اور اس کی سلطنت سے نکل بھاگو ﴿فَانْفُذُوْا لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ تو تم نکل بھاگوا لیکن تم قوت، طاقت اور کامل قدرت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی سلطنت سے باہر نہیں نکل سکتے۔ یہ قوت انہیں کہاں سے حاصل ہو حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو کوئی نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں نہ زندگی اور موت کانہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہیں۔ اس مقام پر اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص کلام نہیں کرسکے گا اور مدہم سی آوازوں کے سوا تم کچھ نہیں سن سکو گے۔ اس مقام پر بھی بادشاہ اور غلام، سردار اور رعایا، یا غنی اور محتاج سب برابر ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کا ذکر فرمایا جو اس دن ان کے لیے تیار کی گئی ہوں گی۔