سورة القمر - آیت 25

أَأُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِن بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا ہم سب میں سے اسی پر وحی اتاری گئی ہے ؟ نہیں بلکہ یہ برا جھوٹا اور خود پسند ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ءَاُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا﴾ ’’کیا ہمارے سب کے درمیان سے صرف اسی پر وحی اتاری گئی ہے؟‘‘ یعنی اللہ ہم میں سے اس کو کس بنا پر خصوصیت عطا کرتا ہے اور اس پر ذکر نازل کرتا ہے؟ اس میں کون سی ایسی خوبی ہے جس کی بنا پر ہم میں سے صرف اسے ہی یہ خصوصیت عطا کی ہے؟ یہ وہ اعتراض ہے جو اہل تکذیب ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ پر کرتے چلے آئے ہیں اسی کی بنیاد پر انبیاء ومرسلین کی دعوت پر حملہ آور ہوتے رہے اور اس کورد کرتے رہے اللہ نے اس شبہ کا جواب رسولوں کے اس قول کے ذریعے سے دیا جو انہوں نے امتوں سے کہا تھا۔ ﴿قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـٰكِنَّ اللّٰـهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ﴾(ابراہیم:14؍11) ’’ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ واقعی ہم محض تم جیسے بشر ہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس پر احسان کرتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو ایسے اوصاف، اخلاق اور کمالات سے نوازا ہوتا ہے جن کی بنا پر وہ اپنے رب کی رسالت اور اس کی وحی کے اختصاس کی صلاحیت رکھتے ہیں یہ اللہ کی رحمت اور حکمت ہے کہ رسول نوع بشری میں سے ہیں۔ اگر رسول فرشتوں میں سے ہوتے تو انسان کا ان سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اگر فرشتوں کو رسول بنایا ہوتا تو جھٹلانے والوں پر فوراً عذاب نازل ہوجاتا۔ قوم ثمود سے اپنے نبی کے بارے میں صادر ہونے والے اس کلام کا مقصد صرف حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلانا تھا اس لیے انہوں نے آپ پر ظالمانہ حکم لگائے، چنانچہ انہوں نے کہا: ﴿ بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ﴾ ’’بلکہ وہ تو سخت جھوٹا اور شر کا حامل ہے‘‘ اللہ ان کا برا کرے، ان کی آرزوئیں کس قدر بے وقوفی پر مبنی ہیں اور وہ سچے خیر خواہوں کے مقابلے میں ان کو برے خطابات سے مخاطب کرنے میں کتنے ظالم اور کتنے سخت ہیں۔ جب ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو ضروری تھا کہ اللہ ان کو سزا دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اونٹنی بھیجی جو ان کے لیے اللہ کی سب سے بڑی نعمت تھی جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھی اور اس کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھی وہ اس کا دودھ دوہتے تھے جو ان سب کے لیے کافی ہوتا تھا۔ ﴿فِتْنَةً لَّهُمْ﴾ یعنی اللہ کی طرف سے یہ اونٹنی ان کی آزمائش اور امتحان کے طور پر تھی۔