سورة القمر - آیت 1

اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

قیامت قریب آپہنچی اور چاند پھٹ گیا (١۔ ٢)

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک وتعالی آگاہ فرماتا ہے کہ وہ گھڑی یعنی قیامت قریب آگئی ہے اس کی آمد کا وقت ہو گیا، بایں ہمہ اس کو جھٹلانے والے جھٹلاتے چلے جارہے ہیں اور اس کے نزول کے لیے تیار نہیں۔ اللہ ان کو بڑی بڑی نشانیاں دکھاتا ہے جو اس کے وقوع پر دلالت کرتی ہیں ان جیسی نشانیاں لانا انسان کے بس میں نہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لے کر مبعوث ہوئے ہیں، اس کی صداقت پر دلالت کرنے والا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ جب آپ کی تکذیب کرنے والوں نے آپ سے مطالبہ کیا کہ آپ کوئی ایسا خارق عادت معجزہ دکھائیں جو قرآن کی صحت اور آپ کی صداقت پر دلالت کرے تو آپ نے اللہ کے حکم سے چاند کی طرف اشارہ کردیا چنانچہ چاند اللہ کے حکم سے دوٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا جبل ابی قبیس پر اور دوسرا ٹکڑا جبل قعیقعان پر چلا گیا۔ مشرکین اور دیگر لوگ اس عظیم معجزے کا مشاہدہ کررہے تھے جو عالم علوی میں وقوع پذیر ہوا جس میں مخلوق ملمع سازی کی قدرت رکھتی ہے نہ تخیل کی شعبدہ بازی کرسکتی ہے چنانچہ انہوں نے ایک ایسے معجزے کا مشاہدہ کیا جو اس سے قبل انہوں نے کبھی نہیں دیکھا بلکہ انہوں نے کبھی سنا بھی نہیں تھا کہ آپ سے پہلے گزرے انبیاء ومرسلین کے ہاتھوں پر اس جیسا معجزہ ظاہرہوا ہو وہ اس معجزے کو دیکھ کر مغلوب ہوگئے مگر ایمان ان کے دلوں میں داخل نہ ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی بھلائی چاہی۔ انہوں نے اپنی بہتان طرازی اور سرکشی میں پناہ لی اور کہنے لگے: محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم پر جادو کردیا، مگر اس کی علامت یہ تھی کہ تم کسی ایسے شخص سے پوچھو جو سفر پر تمہارے پاس آیا ہے اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم پر جادو کرنے کی طاقت رکھتے تو وہ اس شخص پر جادو نہیں کرسکتے جس نے تمہاری طرح چاند کے دوٹکڑے ہونے کا مشاہدہ نہیں کیا، چنانچہ انہوں نے اس شخص سے شق قمر کے بارے میں پوچھا جو سفر پر آئے تھے انہوں نے بھی شق قمر کے وقوع کے بارے میں خبر دی۔ اس پر انہوں نے کہا: ﴿سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ﴾ ’’یہ ایک ہمیشہ کا جادو ہے‘‘ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہم پر بھی جادو کردیا اور دوسروں پر بھی۔ یہ ایسا بہتان ہے جو صرف انہی لوگوں میں رواج پاسکتا ہے جو مخلوق میں سب سے زیادہ بے وقوف، ہدایت اور عقل کے راستے سے سب سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی طرف سے صرف اسی ایک معجزے کا انکار نہیں بلکہ ان کے پاس جو بھی معجزہ آتا ہے تو یہ اس کی تکذیب کرنے اور اس کو ٹھکرانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا﴾ ’’اور اگر وہ مشرک کوئی معجزہ دیکھتے ہیں تو منہ موڑ لیتے ہیں‘‘ یہاں ضمیر کو شق قمر کی طرف نہیں لوٹایا اور یوں نہیں کہا کہ وان یروھا ’’اور اگر وہ اسے دیکھتے ہیں‘‘ بلکہ کہا: ﴿وَاِنْ یَّرَوْا اٰیَۃً یُّعْرِضُوْا﴾ پس حق اور ہدایت کی اتباع کرنا ان کا مقصد نہیں۔ ان کا مقصد تو خواہشات نفس کی پیروی ہے، اس لیے فرمایا: ﴿وَکَذَّبُوْا وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاءَہُمْ﴾ ’’اور انہوں نے اسے جھٹلایا اور اپنی خواہشات کی اتباع کی۔‘‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ﴾ (القصص:28؍50) ’’پھر اگر وہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو جان لیجئے کہ وہ صرف اپنی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اگر ان کا مقصد ہدایت کی پیروی کرنا ہوتا تو وہ ضرور ایمان لے آتے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر انہیں براہین وبینات اور قطعی دلائل کا مشاہدہ کرایا ہے جو تمام مطالب الٰہیہ اور مقاصد شرعیہ پر دلالت کرتی ہیں۔