مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَىٰ
جو کچھ بھی پیغمبر کی آنکھوں نے دیکھا، دل نے اس کے سمجھنے میں غلطی نہیں کی
﴿مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی﴾ ’’اس رسول نے جو کچھ دیکھا اس کے دل نے (اس کے متعلق) جھوٹ نہیں بولا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف جو وحی بھیجی اس پر آپ کا قلب مبارک، آپ کی رؤیت، آپ کی سماعت اور آپ کی بصارت متفق تھے، یہ اس وحی کے کامل ہونے کی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف بھیجی، نیز یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کو اس طرح حاصل کیا کہ اس میں کوئی شک شبہ نہ تھا۔ آپ کی آنکھ مبارک نے جو کچھ دیکھا آپ کے قلب مقدس نے اس کو نہیں جھٹلایا اور نہ اس میں کوئی شک ہی کیا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے مراد وہ بڑی بڑی آیات الٰہی ہوں جو اس رات آپ کو دکھائی گئیں جس رات آپ کو آسمانوں پر لے جایا گیا، آپ کو اپنے قلب مبارک اور رؤیت کے ساتھ اس کے حق ہونے کا یقین تھا آیت کریمہ کی یہی تفسیر صحیح ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رب کے دیدار اور اس کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے اسے بہت سے علمائے کرام نے اختیار کیا ہے پھر وہ اسی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دنیا میں دیدار الٰہی کو ثابت کرتے ہیں مگر پہلا قول صحیح ہے کہ اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں۔ جیسا کہ آیات کریمہ کا سیاق دلالت کرتا ہے نیز یہ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو اپنی اصلی شکل میں دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ آسمان دنیا کے نیچے افق اعلیٰ میں، جیسا کہ گزشتہ سطور میں گزر چکا ہے اور دوسری دفعہ ساتویں آسمان کے اوپر جس رات آپ کو سیر کروائی گئی۔