فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ
(اے پیغمبر) اگر پھر بھی یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سے ان رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے جو کھلی کھلی نشانیاں بھی لائے تھے، لکھے ہوئے صحیفے بھی اور ایسی کتاب بھی جو (حق کو) روشن کردینے والی تھی۔
پھر اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں خوشخبری سنائی ہے ﴿فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ ﴾” پس اگر انہوں نے تمہاری تکذیب کی ہے تو تم سے پہلے رسولوں کو بھی جھٹلایا گیا ہے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنا اور اللہ کے رسولوں کی تکذیب کرنا ان ظالموں کی عادت اور وتیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی تکذیب اس وجہ سے نہ تھی کہ وہ معجزہ دکھانے سے قاصر رہے یا دلیل واضح نہ تھی بلکہ﴿ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ ﴾ یعنی وہ تو دلائل عقلیہ اور براہین نقلیہ لے کر مبعوث ہوئے ﴿وَالزُّبُرِ ﴾ ان کے لیے آسمان سے لکھی ہوئی کتابیں نازل ہوئیں ان کتابوں کو رسول کے سوا کوئی اور نہیں لا سکتا۔ ﴿وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ﴾ یعنی احکام شرعی کو روشن اور عیاں کرنے والی اور یہ احکام الٰہی جن محاسن عقلی پر مشتمل ہیں ان کو بیان کرنے والی ہیں نیز سچی خبروں کو روشن کرتی ہے۔ لہٰذا جب ان اوصاف کے حامل رسولوں پر ایمان لانا ان کی عادت نہیں تو ان کا معاملہ آپ کو غمزدہ نہ کر دے۔