قَالَ قَرِينُهُ رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ وَلَٰكِن كَانَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ
اس کا ساتھی کہے گا، اے میرے رب میں نے اسے گمراہ نہیں کیا تھا لیکن یہ خود ہی پرلے درجے کی گمراہی میں پڑا ہوا تھا۔
﴿ قَالَ قَرِينُهُ ﴾ اس کا شیطان ساتھی اس سے بری الذمہ ہوتے ہوئے اور اس کے گناہ کا اسی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہے گا : ﴿رَبَّنَا مَا أَطْغَيْتُهُ﴾ ” اے ہمارے رب ! میں نے اسے سرکش نہیں بنایا“ کیونکہ مجھے اس پر کوئی اختیار تھا نہ میرے پاس کوئی دلیل و برہان تھی بلکہ یہ خود ہی انتہائی گمراہی میں تھا، وہ خود ہی اپنے اختیار سے گمراہ ہو کر حق سے دور ہوگیا۔ جیسا کہ ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللّٰـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ﴾(ابراہیم : 18؍22)” اور جب فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان کہے گا : بے شک اللہ نے تمہارے ساتھ سچا وعدہ کیا اور میں نے جو وعدہ تمہارے ساتھ کیا میں نے اس کی خلاف ورزی کی“ میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی۔ پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے۔