لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ
تواس چیز سے غفلت میں پڑا ہوا تھا، اب ہم نے تجھ پر تیرا پردہ ہٹا دیا ہے سوآج تیری نگاہ خوب تیز ہے۔
مگر اکثر لوگ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اس لئے فرمایا : ﴿لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَـٰذَا﴾ ” اس سے تو غافل ہو رہا تھا۔“ یہ بات قیامت کے روز روگردانی کرنے والے اور انبیاء ورسل کو جھٹلانے والے کو زجرو توبیخ، ملامت اور عتاب کے طور پر کہی جائے گی، یعنی تو اس دن کو جھٹلایا کرتا تھا اور اس دن کے لئے عمل نہ کرتا تھا، پس اب ﴿فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ﴾ ” ہم نے تجھ سے پردہ ہٹا دیا“ جس نے تیرے دل کو ڈھانپ رکھا تھا جس کی بنا پر تو کثرت سے سوتا تھا اور اپنی روگردانی پر جما ہوا تھا۔ ﴿ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ ﴾ ” پس آج تیری نگاہ تیز ہے۔“ وہ مختلف قسم کے عذاب اور سزاؤں کو دیکھے گا جو اسے ڈرا رہی ہوں گی اور گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی ہونگی۔ یا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے سے خطاب ہے، کیونکہ دنیا میں وہ ان فرائض سے غافل تھا جن کے لئے اس کو تخلیق کیا گیا تھا مگر قیامت کے روز وہ بیدار ہوگا، اس کی غفلت دور ہوجائے گی اور یہ سب ایسے وقت میں ہوگا جب کوتاہی کا تدارک اور ناکامی کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس عظیم دن کو اہل تکذیب کے ساتھ سلوک کے ذکر کے ذریعے سے بندوں کے لئے تخویف اور ترہیب ہے۔