فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ
نتیجہ یہ کہ یہ لوگ اللہ کی نعمت اور فضل لے کر اس طرح واپس آئے کہ انہیں ذرا بھی گزند نہیں پہنچی، اور وہ اللہ کی خوشنودی کے تابع رہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
﴿فَانقَلَبُوا ﴾یعنی مسلمان لوٹے﴿بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ﴾” اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ، ان کو کوئی برائی نہ پہنچی‘ جب یہ خبر مشرکین کے پاس پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام تمہارے تعاقب میں آرہے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے تھے وہ بھی اب نادم ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ مکہ واپس چلے گئے اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کی نعمت اور اس کے فضل و کرم سے مستفید ہو کر لوٹے کیونکہ اس حالت میں بھی ان کو جنگ کے لیے نکلنے کی توفیق ہوئی اور انہوں نے اپنے رب پر بھروسہ کیا۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے غازیوں کا پورا اجر لکھ دیا۔ پس اپنے رب کے لیے حسن اطاعت اور اس کی نافرمانی سے بچنے کی وجہ سے ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔