سورة الفتح - آیت 11

سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا ۚ يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ لَكُم مِّنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا ۚ بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے نبی ! وہ بدوی جو (غزوہ حدیبیہ) میں پیچھے رہ گئے تھے وہ ضرور آکر کہیں گے آپ سے کہ ہمیں ہمارے اموال اور اہل وعیال کی فکر نے مشغول کررکھا ہے سوآپ ہمارے لیے مغفرت کی دعا فرمائیں، یہ لوگ اپنی زبان سے وہ بات کہتے ہیں جوان کے دلوں میں نہیں ہے اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے یاکسی نفع سے بہرمند کرنا چاہے تو کون ہے جو تمہارے معاملہ میں اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار رکھتا ہو بلکہ (بات یہ ہے کہ) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سب سے باخبر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ضعیف الایمان بدویوں کی مذمت بیان کی ہے جو جہاد فی سبیل اللہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہے، ان کے دلوں میں مرض اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی تھی۔ نیز وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس معذرت کرلیں گے کہ ان کے مال اور اہل و عیال کی مصروفیات نے ان کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے سے روکے رکھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کرلیں گے کہ آپ ان کے لئے استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ﴾ ” یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغفار کی درخواست کرنا، ان کی ندامت اور اپنے گناہ کے اقرار پر دلالت کرتا ہے نیز اس امر کے اعتراف پر دلالت کرتا ہے کہ وہ جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے، جس کے لئے توبہ و استغفار کی ضرورت ہے۔