سورة الفتح - آیت 1

إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے پیغمبر ! ہم نے آپ کو کھلی فتح دی ہے (١)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس فتح مذکور سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مشرکین مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا جبکہ آپ عمرہ کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آئے۔ یہ ایک طویل قصہ ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کے ساتھ دس سال تک جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا، اس شرط پر کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے۔ جو کوئی قریش کے معاہدے میں داخل ہو کر حلیف بننا چاہے ایسا کرسکتا ہے اور جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں داخل ہو کر آپ کا حلیف بننا چاہے وہ ایسا کرسکتا ہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے مامون ہوں گے تو دعوت دین کا دائرہ وسیع ہوگا، سرزمین کے طول و عرض مومن جہاں کہیں بھی ہوگا، وہ دین کی دعوت دے سکے گا جو شخص حقیقت اسلام سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لئے واقفیت حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اس مدت کے دوران لوگ فوج در فوج اللہ تعالیٰ کے دین میں داخل ہوئے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس صلح کو ” فتح“ کے نام سے موسوم کرکے اس کو ” فتح مبین“ کی صفت سے موصوف کیا، یعنی واضح فتح۔ کیونکہ مشرکین کے شہروں کو فتح کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے دین کا اعزاز اور مسلمانوں کی نصرت ہے اور یہ مقصد اس فتح سے حاصل ہوگیا، اس فتح پر اللہ تعالیٰ نے متعدد امور مرتب فرمائے۔