سورة محمد - آیت 36

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ دنیا کی زندگی توایک کھیل تماشا ہے اور اگر تم ایمان لے آئے اور تقوی کی راہ اختیار کرلو تو وہ تمہیں تمہارے اجروثواب عطا فرمائے گا اور تمہارے مال تم سے طلب نہیں کرے گا

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کو اس دنیا کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے، کہ دنیا محض لہو و لعب ہے یعنی بدن کے لئے لعب اور قلوب کے لئے لہو، اس میں زہد کی ترغیب ہے۔ پس بندہ اپنے مال و متاع، اولاد، اپنی زیب و زینت، اپنی بیویوں، ماکو لات و مشروبات سے حصول لذت، اپنے مساکن و مجالس، مناظر اور ریاست میں مگن ہو کر غافل اور ہر بے فائدہ عمل میں کھیلتا رہتا ہے بلکہ وہ بے کاری، غفلت اور گناہوں کے دائرے میں گھرا رہتا ہے، یہاں تک کہ اپنی دنیا کی زندگی کو مکمل کرلیتا ہے اور اس کی اجل آجاتی ہے۔ جب یہ تمام چیزیں منہ موڑ کر بندے سے جدا ہوجاتی ہیں اور بندے کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اس کا خسارہ اور محرومی واضح ہوجاتی ہے اور اس کا عذاب آموجود ہوتا ہے تو یہ چیز خردمند شخص کے لئے، دنیا میں زہد، عدمِ رغبت اور اس کے معاملے میں اہتمام کی موجب ہے۔ وہ کام جو ہر چیز سے زیادہ اہتمام کے لائق ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا ﴾ ” اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ اختیار کرو۔“ یعنی تم اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لاؤ اور تقویٰ پر قائم رہو جو ایمان کے لوازم اور اس کے تقاضوں میں سے ہے اور تقویٰ سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو ترک کرتے ہوئے، دائمی طور پر اس کی رضا کے مطابق عمل کرنا۔ تو یہ عمل بندے کو فائدہ دیتا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو اس لائق ہے کہ اس میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رغبت کر جائے اور اس کی طلب میں اپنے عزم وارادے اور اپنی جدوجہد کو صرف کیا جائے اور یہی چیز اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے، ان پر رحمت اور لطف و کرم کی بنا پر مطلوب و مقصود ہے، تاکہ انہیں بے پایاں ثواب عطا کرے۔ بنا بریں فرمایا : ﴿وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ﴾ ” اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور تقویٰ اختیار کرو گے تو وہ تمہیں تمہارا اجر دے گا اور تم سے تمہارا مال طلب نہیں کرے گا۔“ یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں کوئی ایسی تکلیف نہیں دینا چاہتا جو تمہارے لئے مشقت اور مشکل کا باعث ہو، مثلاً وہ تم سے مال لے کر تمہیں مال کے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتا یا تمہیں کسی ایسے نقصان سے دور چار نہیں کرنا چاہتا جس سے تمہیں ضرور پہنچے۔