سورة محمد - آیت 4

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

پس جب تمہارا اور کفار کا مقابلہ میدان جنگ میں ہو تو ان کی گردن اڑادویہاں تک کہ جب خون ریزی ہوچکے تو انہیں خوب باندھ لو، اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دو یافدیہ لے کررہا کرو یہاں تک کہ لڑائی موقوف ہوجائے۔ یہ حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا (لیکن اس نے جہاد کا حکم دیا) تاکہ تم کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اللہ تعالیٰ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کی ان امور کی طرف راہ نمائی کرتے ہوئے، جن میں ان کی بھلائی اور ان کے دشمنوں کے مقابلے میں نصرت ہے، ارشاد فرماتا ہے : ﴿ فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾ جب جنگ اور قتال میں تمہارا کفار سے سامنا ہو تو ان کے خلاف بہادری سے لڑو اور ان کی گردنیں مار و یہاں تک کہ ان کو اچھی طرح کچل دو اور جب تم ان کی طاقت کو توڑ چکو اور تم سمجھو کہ ان کو قیدی بنانا زیادہ بہتر ہے ﴿فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ﴾ تو انہیں مضبوطی سے باندھ لو۔ یہ ان کو قیدی بنانے کے لئے احتیاط ہے تاکہ وہ بھاگ نہ جائیں۔ جب ان کو مضبوطی سے باندھ دیا جائے گا تو مسلمان ان کی طرف سے جنگ اور ان کے شر سے محفوظ ہوجائیں گے۔ جب وہ تمہاری قید میں آجائیں، تو تمہیں اختیار ہے کہ تم ان پر احسان کرتے ہوئے مال اور فدیہ لئے بغیر چھوڑ دو یا ان سے فدیے لے لو یعنی تم ان کو وقت تک آزادنہ کرو جب تک کہ وہ اپنا فدیہ ادا نہ کریں یا ان کے ساتھی فدیہ میں کچھ مال ادا نہ کریں یا اس کے بدلے میں کسی مسلمان قیدی کو جو ان کی قید میں ہو، آزاد نہ کریں۔ یہ حکم دائمی ہے ﴿ حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ﴾ حتیٰ کہ جنگ باقی نہ رہے اور تمہارے درمیان صلح اور امن قائم ہوجائے کیونکہ ہر مقام کے لئے ایک قول اور ہر صورت حال کے لئے ایک حکم ہے۔ گزشتہ صورت حال اس وقت تھی جب جنگ اور قتال کی حالت تھی۔ جب کسی وقت، کسی سبب کی بنا پر جنگ اور قتال نہ ہو تو قتل اور قیدی بنانے کا فعل بھی نہ ہوگا۔ ﴿ ذٰلِكَ ﴾ یعنی یہ حکم مذکور کفار کے ذریعے سے اہل ایمان کی آزمائش، ان کے درمیان گردش ایام اور ایک دوسرے کے خلاف فتح حاصل کرنے کے بارے میں ہے ﴿ وَلَوْ يَشَاءُ اللّٰـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ ﴾ ” اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لے لیتا۔“ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ کسی ایک ہی موقع پر کفار سے انتقال نہ لے تاکہ مسلمانوں کے ہاتھوں ان کی اصل ہی ختم نہ ہوجائے۔ ﴿وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ﴾ ” لیکن اس نے چاہا کہ ایک دوسرے کے ذریعے سے تمہاری آزمائش کرے“ تاکہ جہاد کا بازار گرم رہے اور بندوں کے احوال کھلتے رہیں، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ہوتا رہے، جو کوئی ایمان لائے وہ علی وجہ البصیرت ایمان لائے، وہ مسلمانوں کے غلبے سے مطیع ہو کر ایمان نہ لائے، کیونکہ یہ تو بہت ہی کمزور ایمان ہے اور ایسا ایمان رکھنے والا شخص امتحان اور آزمائش کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ﴿ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللّٰـهِ ﴾ ” اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے“ ان کے لئے ثواب جزیل اور اجر جمیل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جن کے خلاف ان کو لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اعمال کو باطل اور ضائع نہیں کرے گابلکہ اللہ تعالیٰ ان کے اعمال قبول فرما کر ان کو بڑھائے گا۔ دنیا و آخرت میں ان کے اعمال کے نتائج ظاہر ہوں گے۔