سورة الأحقاف - آیت 8

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کیا یہ یوں کہتے ہیں کہ رسول نے اسے خود گھڑلیا ہے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اگر میں نے اسے (قرآن مجید کو) خود گھڑ لیا ہے تو تم خدا کی گرفت سے مجھے کچھ بھی نہیں بچاسکو گے، تم قرآن مجید کے بارے میں جو باتیں بنارہے ہو اللہ ان کو خوب جانتا ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہی دینے کو وہی کافی ہے اور وہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿ أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ﴾ یعنی کیا وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے۔ ﴿ قُلْ ﴾ ان سے کہہ دیجئے : ﴿ إِنِ افْتَرَيْتُهُ ﴾ ” اگر میں نے اسے بنایا ہے۔“ تو اللہ مجھ پر قدرت رکھتا ہے اور جس کام میں تم مشغول ہو اسے بھی خوب جانتا ہے۔ اس نے مجھے اس افتراپردازی کی سزا کیوں کر نہ دی جس کو تم میری طرف منسوب کرتے ہو؟ پس کیا ﴿ تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللّٰـهِ شَيْئًا ﴾ اگر للہ تعالیٰ مجھے کسی ضرر میں مبتلا کرنے یا رحمت سے نوازنے کا ارادہ کرے تو تم اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں میرے لئے کسی بھی چیز کا اختیار رکھتے ہو؟ ﴿ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ﴾ ” وہ اس گفتگو کو خوب جانتا ہے جو تم اس کے بارے میں کرتے ہو، وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ کافی ہے۔“ پس اگر میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑا ہوتا تو مجھے اپنی گرفت میں لے کر ایسی سزا دیتا جسے ہر کوئی دیکھتا، کیونکہ اگر میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہوتا تو یہ سب سے بڑی افترا پردازی ہوتی۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو، حق کے بارے میں ان کے عناد اور مخاصمت کے باوجود توبہ کی طرف بلایا اور فرمایا : ﴿ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ﴾ ” اور وہ بخشنے والا مہربان ہے“ یعنی توبہ کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاؤ، اپنے گناہوں کو چھوڑو، اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا، تم پر رحم فرمائے گا، تمہیں بھلائی کی توفیق سے نوازے گا اور تمہیں بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔