سورة الأحقاف - آیت 5

وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

آخر اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کوچھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک بھی ان کی پکار کا جواب نہیں دے سکتے اور وہ ان کے پکارنے سے بالکل بے خبر ہیں

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پس معلوم ہوا کہ شرک کے بارے میں مشرکین کی بحث و جدال کسی برہان اور دلیل پر مبنی نہیں، ان کا اعتماد جھوٹے نظریات، گھٹیا آراء اور فاسد عقل پر ہے۔ ان کے احوال کا استقراء اور ان کے علوم و اعمال کا تتبع ان نظریات کے فاسد ہونے پر دلالت کرتا ہے، نیز ان لوگوں کے احوال پر غور کرنے سے بھی ان کا بطلان ثابت ہوتا ہے جنہوں نے طاغوت کی عبادت میں اپنی عمریں گنوادیں۔ کیا طاغوت نے دنیا یا آخرت میں انہیں کوئی فائدہ دیا؟ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللّٰـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ﴾ ” اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے جو اللہ کے سوا کسی ایسی ذات کو پکارے جو قیامت تک اس جواب نہ دے سکے۔“ یعنی جتنی مدت اس کا دنیا میں قیام ہے وہ اس سے ذرہ بھر فائدہ نہیں اٹھا سکتا ﴿ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴾ ” اور وہ ان کی پکار سے غافل ہیں۔“ وہ ان کی کوئی دعا سن سکتے ہیں نہ ان کی کسی پکار کا جواب دے سکتے ہیں۔ یہ ان کا دنیا میں حال ہے اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔