سورة آل عمران - آیت 153

إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(وہ وقت یاد کرو) جب تم منہ اٹھائے چلے جارہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے، اور رسول تمہارے پیچھے سے تمہیں پکار رہے تھے، چنانچہ اللہ نے تمہیں (رسول کو) غم ( دینے) کے بدلے (شکست کا) غم دیا، تاکہ آئندہ تم زیادہ صدمہ نہ کیا کرو، (٥٠) نہ اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے، اور نہ کسی اور مصیبت پر جو تمہیں پہنچ جائے۔ اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ جنگ سے ان کی پسپائی کے وقت ان کا حال بیان کرتے ہئے ان پر عتاب کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا : ﴿إِذْ تُصْعِدُونَ ﴾ یعنی جب تم تیزی سے بھاگے جا رہے تھے﴿وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ جنگ سے فرار اور نجات کے سوا تمہارا کوئی ارادہ نہ تھا اور حال یہ تھا کہ تم کسی بڑے خطرے سے بھی دوچار نہ تھے کیونکہ تم سب سے آخر میں تھے اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو دشمن کے قریب اور بلاواسطہ میدان جنگ میں تھے، بلکہ صورت حال یہ تھی﴿وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ﴾ ” رسول تمہیں بلا رہے تھے، تمہارے پیچھے سے‘‘ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو بلا رہے تھے جو پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے۔ آپ پکار رہے تھے ’’اے اللہ کے بندو ! میرے پاس آؤ“ مگر تم نے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا نہ تم ان کے پاس رکے۔ پس میدان جنگ سے فرار فی نفسہ موجب ملامت ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلانا، جو اس امر کا موجب تھا کہ اپنی جان پر بھی آپ کی پکار کو مقدم رکھا جائے، سب سے بڑی ملامت کا مقام ہے، کیونکہ تم لوگ بلانے کے باوجود آپ سے پیچھے رہے۔ ﴿فَأَثَابَكُمْ﴾ یعنی اس نے تمہارے اس فعل پر تمہیں جزا دی ﴿غَمًّا بِغَمٍّ﴾ یعنی غم کے بعد غم۔ فتح حاصل نہ ہونے کا غم، مال غنیمت سے محروم ہونے کا غم، ہزیمت اٹھانے کا غم اور ایک ایسا غم جس نے تمام غموں کو بھلا دیا اور وہ تھا تمہارا اس افواہ کو سن لینا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کردیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور اپنے بندوں پر حسن نظر کی بنا پر ان تمام امور کے اجتماع کو ان کے لیے بھلائی بنا دیا۔ فرمایا : ﴿لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ﴾یعنی جو فتح و ظفر تمہیں حاصل نہ ہوسکی، اس پر غمزدہ نہ ہوں ﴿وَلَا مَا أَصَابَكُمْ﴾” اور نہ اس پر جو تمہیں پہنچا“ یعنی تمہیں ہزیمت قتل اور زخموں کا جو سامنا کرنا پڑا اور جب تم نے اس بات کی تحقیق کرلی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید نہیں ہوئے تو تم پر تمام مصیبتیں آسان ہوگئیں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ ہونے پر خوش ہوگئے آپ کی زندگی کی خبر نے ہر مصیبت اور سختی کو فراموش کردیا۔ پس ابتلاء اور آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار پنہاں ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے علم، تمہارے اعمال اور ظاہر و باطن کے مکمل باخبر ہونے کے ساتھ صادر ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا : ﴿ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴾” اللہ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ “ اللہ تعالیٰ کے ارشاد﴿لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ﴾میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ غم اور مصیبت اس لیے مقدر کئے ہیں تاکہ تمہارے نفس ان مصائب کا سامنا کرنے پر آمادہ اور ان پر صبر کرنے کے عادی ہوں اور تمہارے لیے مشقتوں کو برداشت کرنا آسان ہوجائے۔