بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ
(یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں) بلکہ اللہ تمہارا حامی و ناصر ہے، اور وہ بہترین مددگار ہے۔
پھر اہل ایمان کو بتلایا کہ اللہ تعالیٰ ان کا مولیٰ اور حامی و ناصر ہے اور اس میں اہل ایمان کے لیے خوشخبری ہے کہ وہ اپنے لطف و کرم سے ان کے امور کی سرپرستی کرتا ہے اور انہیں مختلف قسم کے شر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہ ہر ایک کو چھوڑ کر صرف اسی کو اپنا ولی اور مددگار بنائیں۔ اللہ کی سرپرستی اور اس کی طرف سے مسلمانوں کی مدد کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ ان کے دشمن کفار کے دلوں میں رعب ڈال دے گا۔ یہاں رعب سے مراد وہ خوف عظیم ہے جو کفار کو ان کے بہت سے مقاصد سے روک دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ پورا فرمایا وہ اس طرح کہ ” احد“ کے واقعہ کے بعد جب مشرکین واپس لوٹے تو (راستے میں) انہوں نے باہمی مشورہ کیا اور کہنے لگے ” ہم کیسے لوٹ سکتے ہیں۔ ہم نے ان کے بعض لوگوں کو قتل کیا اور ان کو شکست دی مگر ہم نے ان کا مکمل استیصال نہیں کیا۔“ چنانچہ انہوں نے اس کا ارادہ کیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور وہ خائب و خاسر ہو کر لوٹ گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بہت بڑی فتح ہے۔ گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مومن بندوں کے لیے فتح و نصرت، دو امور سے خالی نہیں ہوتی۔ (١) اللہ تعالیٰ یا تو کفار کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ (٢) یا انہیں ذلت سے دوچار کرتا ہے اور وہ خائب و خاسر واپس لوٹ جاتے ہیں اور یہ (رعب ڈال کر انہیں ناکام لوٹا دینا) دوسری قسم سے ہے۔