وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کو حکم دیا کہ مشورہ کرکے تمام امور سرانجام دیں اور جو کچھ روزی انہیں دے رکھی ہی (١١) نیکی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں
﴿وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ ﴾ ” اور جو اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں۔“ یعنی جو اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی رضا کا مطمح نظر اور اس کے قرب کا حصول ان کی غرض و غایت بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی دعوت کا جواب دینے سے مراد ہے، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا، اس لئے ان کا استجابت پر عطف کیا ہے، یہ خاص پر عام کے عطف کے باب میں سے ہے جو اس کے فضل و شرف کی دلیل ہے۔ اس لئے فرمایا : ﴿ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ﴾ یعنی اس کے ظاہر و باطن اور فرائض و نوافل کو قائم کرتے ہیں۔ ﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ ” اور ہم نے جو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ یعنی نفقات واجبہ، مثلاً: زکوٰۃ اور اقارب پر خرچ کرنا وغیرہ اور نفقات مستحبہ مثلاً، عام مخلوق پر صدقہ کرنا۔ ﴿ وَأَمْرُهُمْ﴾ ان کے دینی اور دنیاوی معاملات ﴿شُورَىٰ بَيْنَهُمْ﴾ ” باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔“ یعنی متروکہ امور میں ان میں سے کوئی بھی اپنی رائے کو مسلط نہیں کرتا۔ یہ وصف ان کی اجتماعیت، آپس کی الفت، مودت اور محبت ہی کا حصہ ہے۔ ان کی کمال عقل ہے کہ جب وہ کسی ایسے کام کا ارادہ کرتے ہیں جس میں غور و فکر کی ضرورت ہو تو وہ اکٹھے ہو کر اس کے بارے میں بحث و تمحیص اور آپس میں مشورہ کرتے ہیں، جب ان پر مصلحت واضح ہوجاتی ہے تو اسے جلدی سے قبول کرلیتے ہیں جیسے غزوہ، جہاد، امارت یا قضا وغیرہ کے لئے عمال مقرر کرنے میں مشورہ کرنا اور دینی مسائل میں بحث و تحقیق کرنا کیونکہ یہ اعمال مشترکہ امور میں شامل ہوتے ہیں تاکہ صحیح رائے واضح ہوجائے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ یہ بھی اسی آیت کریمہ کے تحت آتا ہے۔