فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
سوجوکچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی زندگی کا سازوسامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں
اس آیت کریمہ میں دنیا کو ترک کرنے اور آخرت کو اختیار کرنے کی ترغیب اور ان اعمال کا ذکر ہے جو آخرت کی منزل تک پہنچاتے ہیں، لہٰذا فرمایا :﴿ فَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ﴾ ” پس جو کہ تمہیں دیا گیا ہے۔“ یعنی اقتدار، ریاست، سرداری، مال، بیٹے اور بدنی صحت و عافیت وغیرہ ﴿فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا﴾ ” پس یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے۔“ یعنی منقطع ہونے والی لذت ہے ﴿وَمَا عِندَ اللّٰـهِ﴾ ” اور جو اللہ کے پاس ہے۔“ بے پایاں ثواب، جلیل القدر اور دائمی نعمتوں میں سے وہ ﴿ خَيْرٌ﴾ لذات دنیا سے بہتر ہے، اخروی نعمتوں اور دنیاوی لذتوں کے مابین کوئی نسبت ہی نہیں۔ ﴿وَأَبْقَىٰ﴾ ” اور زیادہ پائیدار ہے۔“ کیونکہ یہ ایسی نعمتیں ہیں کہ ان میں کوئی تکدر ہے نہ یہ ختم ہونے والی ہیں اور نہ یہ کہیں اور منتقل ہوں گی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا جن کو اس ثواب سے بہرہ مند کیا جائے گا، فرمایا : ﴿لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾ یعنی جنہوں نے ایمان صحیح جو ظاہری اور باطنی ایمان کے اعمال کو مستلزم ہے اور توکل کو جمع کرلیا ہے جو ہر عمل کا آلہ ہے، لہٰذا ہر عمل جس کی مصاحبت میں توکل نہ ہو غیر مکمل ہے۔ جس چیز کو بندہ پسند کرتا ہے اسے حاصل کرنے اور جسے ناپسند کرتا ہے اسے دور کرنے میں قلب کے اللہ تعالیٰ پر پورے وثوق کے ساتھ بھروسا کرنے کا نام توکل ہے۔