إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور اگر وہ چاہے تو ہوا کوٹھہرادے اور یہ جہاز سمندر کی پیٹھ پر کھڑے کھڑے رہ جائیں بلاشبہ اس میں ہر صبر وشکر کرنے والے کے لیے بڑی نشانیاں ہیں
پھر اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ﴿إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ﴾ ” اگر وہ (اللہ) چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے۔“ جس کو اللہ تعالیٰ نے ان کشتیوں کے چلنے کا سبب بنایا ہے ﴿فَيَظْلَلْنَ ﴾ ” اور وہ رہ جائیں۔“ یعنی مختلف انواع کی کشتیاں ﴿ رَوَاكِدَ﴾ سطح سمندر پر ٹھہر جائیں آگے بڑھیں نہ پیچھے ہٹیں۔ یہ چیز دخانی کشتیوں کے متناقض نہیں ہے کیونکہ دخانی کشتیوں کے چلنے کے لئے ہوا کا موجود ہونا شرط ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کشتیوں کو، ان پر سوار ہونے کے کرتوتوں کے سبب سے تباہ کر دے، یعنی سمندر میں غرق کر کے تلف کردے مگر وہ حلم سے کام لیتا ہے اور بہت سے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ ﴿إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾ ” بے شک صبر شکر کرنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں۔‘‘ یعنی جو ان امور پر بہت صبر کرنے والا ہے جن کو اس کا نفس ناپسند کرتا ہے اور اس پر یہ امور شاق گزرتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کو اس مشقت اور اطاعت پر مجبور کرتا ہے، معصیت کے داعی کو اور مصیبت کے وقت نفس کو اللہ تعالیٰ پر ناراضی سے روکتا ہے۔ ﴿شَكُورٍ﴾ نعمتوں اور آسودہ حالی میں شکر ادا کرتا ہے، وہ اپنے رب کی نعمتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے سامنے سرنگوں ہوتا ہے اور نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق صرف کرتا ہے۔ پس یہی وہ شخص ہے جو آیات الٰہی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ رہا وہ شخص جو صبر سے بہرہ ور ہے نہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرتا ہے تو یہ شخص یا تو آیات الٰہی سے روگردانی کرنے والا ہے یا ان سے عناد رکھنے والا ہے اور وہ آیات الٰہی سے مستفید نہیں ہوسکتا۔