وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ
اگر اللہ اپنے سب بندوں کارزق فراخ ردیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرنے لگتے لیکن وہ جس قدر چاہتا ہے ایک مناسب انداز سے اتارتا ہے بے شک وہ اپنے بندوں سے باخبر اور ان پر نگاہ رکھنے والا ہے
پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اپنے لطف و کرم کا ذکر فرمایا کہ وہ اپنے بندوں پر دنیا کو اتنا زیادہ فراخ نہیں کرتا جس سے ان کے دین کو نقصان پہنچے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَلَوْ بَسَطَ اللّٰـهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لئے رزق میں فراخی کردیتا تو وہ زمین میں فساد کرنے لگتے۔“ یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل ہو کر شہوات دنیا سے تمتع میں مصروف ہوجاتے اور دنیا انہیں ان کی خواہشات نفس میں مغشول کردیتی، خواہ وہ معصیت اور ظلم ہی کیوں نہ ہوتے۔ ﴿ وَلَـٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ﴾ ” لیکن وہ اپنے اندازے سے جو چیز چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔“ یعنی اپنے لطف و کرم اور حکمت کے تقاضے کے مطابق ﴿ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ ﴾ ” یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر، خوب دیکھنے والا ہے۔“ جیسا کہ ایک اثر میں مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح صرف غناہی کرتا ہے اگر میں انہیں فقر و فاقہ میں مبتلا کر دوں تو یہ فقر و فاقہ انہیں فاسد کر کے رکھ دے گا اور میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح فقر کے سوا کوئی اور چیز نہیں کرتی اگر میں انہیں غنا عطا کر دوں تو وہ ان کے ایمان کو خراب کر دے اور میرے بندوں میں سے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح، صحت کے سوا کسی چیز سے نہیں ہوتی اگر میں انہیں بیمار کر دوں تو وہ انہیں فاسد کر کے رکھ دے اور میرے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن کے ایمان کی اصلاح صرف مرض سے ہوتی ہے اگر میں انہیں عافیت سے نواز دوں تو یہ عافیت ان کے ایمان کو فاسد کر دے۔ بندوں کے دلوں میں جو کچھ ہے، میں اس کے بارے میں اپنے علم کے مطابق بندوں کے امور کی تدبیر کرتا ہوں۔ بے شک میں خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہوں۔“ [العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ، الإیمان، باب تدبیر الخلق بما یصلح الإیمان، حدیث :27 اس حدیث کی سند ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے لیکن اس کا معنی و مفہوم درست ہے۔ (فتح الباری، 11؍415) ]