قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
تم سے پہلے بہت سے واقعات گزر چکے ہیں، اب تم زمین میں چل پھر کر دیکھو لو کہ جنہوں نے (پیغمبروں کو) جھٹلایا تھا ان کا انجام کیسا ہوا؟
یہ آیات کریمہ اور ان کے بعد آنے والی آیات ” احد“ کے واقعات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو تسلی دیتے ہوئے آگاہ فرماتا ہے کہ ان سے پہلے گزری ہوئی قوموں اور امتوں کو بھی امتحان میں ڈالا گیا اور اہل ایمان کفار کے ساتھ جنگ کی آزمائش میں مبتلا کئے گئے اور وہ بھی کبھی فتح سے نوازے گئے اور کبھی انہیں زک اٹھانا ڑی۔ مگر اس تمام کشمکش کا انجام اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کے حق میں رکھا اور اپنے مومن بندوں کو فتح و نصرت سے نوازا۔ آخر کار جھٹلانے والوں پر غلبہ حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو اپنی نصرت عطا کر کے جھٹلانے والوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔ ﴿فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ ﴾ ” زمین میں چلو پھرو“ یعنی اپنے جسم اور قلوب کے ساتھ (زمین میں چلو پھرو) ﴿فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ ﴾تم تکذیب کرنے والوں کو مختلف قسم کے دنیاوی عذاب اور عقوبتوں میں مبتلا پاؤ گے۔ ان کے شہر تباہ و برباد ہوگئے اور ان کا خسارہ سب پر عیاں ہوگیا۔ ان کی شان و شوکت اور اقتدار قصہ پارینہ بن گئے، ان کا تکبر اور فخر ختم ہوگیا۔ کیا یہ سب اس امر کی سب سے بڑی دلیل اور سب سے بڑا شاہد نہیں کہ جو کچھ انبیاء کرام لے مبعوث ہوئے وہ صداقت پر مبنی ہے؟