أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
یہ ہیں وہ لوگ جن کا صلہ ان کے پروردگار کی طرف سے مغفرت ہے، اور وہ باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہوں گے، جن میں انہین دائمی زندگی حاصل ہوگی، کتنا بہترین بدلہ ہے جو کام کرنے والوں کو ملنا ہے۔
﴿اُولٰئکَ﴾ یعنی وہ لوگ جو ان صفات سے متصف ہیں ﴿جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ﴾ ” ان کی جزا مغفرت ہے ان کے رب کی طرف سے۔“ اور یہ مغفرت ان کے ہر گناہ کو زائل کر دے گی ﴿وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ﴾ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والی نعمتیں، شادمانی، خوبصورتی، رونق، بھلائی، مسرت، عالی شان محل، خوبصورت اور بلند منازل، پھولوں سے لدے ہوئے خوش کن درخت، اور ان خوبصورت مساکن و منازل میں نہریں بہہ رہی ہوں گی ﴿خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ﴾ وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہیں گے انہیں وہاں سے نکالا جائے گا نہ وہ ان جنتوں کے بدلے میں کچھ اور چاہیں گے اور نہ ان نعمتوں کو، جن میں رہتے ہوں گے، بدلا جائے گا۔ ﴿وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴾ ” اور عمل کرنے والوں کا اجر اچھا ہے۔“ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر تھوڑا عمل کیا مگر ان کو بہت زیادہ اجر عطا ہوا، مشقت برداشت کرنے کے بعد ہی راحت کی امید ہوتی ہے اور جزا کے وقت ہی عمل کرنے والے کو اپنے عمل کا پورا اور وافر بدلہ عطا ہوتا ہے۔ یہ آیات کریمہ مرجئہ کے برعکس اہل سنت و الجماعت کے اس موقف پر دلالت کرتی ہیں کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور آیت کریمہ سے استدلال کا پہلو سورۃ الحدید کی اس آیت کو ملا کر مکمل ہوتا ہے جو کہ اس آیت کی نظیر ہے ﴿سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ﴾(الحدید :57؍21) ” اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف لپکو جس کی چوڑائی زمین و آسمان کی چوڑائی کی مانند ہے جسے ان لوگوں کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں“ اس آیت کریمہ میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ﴾ ” جنت متقین کے لیے تیار کی گئی ہے“ پھر متقین کے اعمال مالیہ اور اعمال بدنیہ بیان فرمائے۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ وہ متقین، جو ان صفات سے متصف ہیں، وہی مومن ہیں۔