سورة فصلت - آیت 49

لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

انسان بھلائی کی دعا سے کبھی تھکتا نہیں اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے تو ناامید ہو کر آس تور بیٹھتا ہے

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اس آیت کریمہ میں انسان کی فطرت و طبیعت کا بیان ہے کہ وہ خیر پر صبر کرسکتا ہے نہ شر پر، سوائے اس شخص کے جس کو اللہ تعالیٰ اس حالت سے نکال کر حالت کمال میں منتقل کر دے۔ فرمایا : ﴿ لَّا يَسْأَمُ الْإِنسَانُ مِن دُعَاءِ الْخَيْرِ ﴾ یعنی انسان اللہ تعالیٰ سے اپنی فوز و فلاح، مال، اولاد اور دیگر دنیاوی مطالب و مقاصد کے لئے دعا کرتے ہوئے کبھی نہیں اکتاتا اور اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہتا ہے۔ وہ قلیل یا کثیر کسی چیز پر قناعت نہیں کرتا، اگر اسے دنیا کی ہر چیز مل جائے تب بھی وہ مزید دنیا طلب کرتا رہے گا۔ ﴿ وَإِن مَّسَّهُ الشَّرُّ ﴾ ” اور اگر اس کو کوئی تکلیف پہنچے۔“ یعنی بیماری، فقر اور مختلف مصائب وغیرہ اسے لاحق ہوں ﴿ فَيَئُوسٌ قَنُوطٌ ﴾ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے اور سمجھنے لگتا ہے کہ یہ مصیبت اسے ہلاک کر ڈالے گی اور ایسے اسباب اختیار کرنے کی فکر کرتا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔ اس رویے سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے، ان لوگوں کو اگر بھلائی، نعمت اور کوئی محبوب چیز عطا ہوتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور وہ اس چیز سے بھی ڈرتے ہیں کہ یہ نعمتیں کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے استدراج اور مہلت نہ ہوں۔ اگر انہیں اپنی جان، مال اور اولاد میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو صبر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے۔