سورة غافر - آیت 85

فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لیکن ہمارا عذاب دیکھ لینے بعد ان کایہ ایمان کب سودمند ہوسکتا تھا؟ اللہ کا یہی دستور مقررہے جوہمیشہ اس کے بندوں پر چلاآیا ہے اور اس وقت کافر سخت نقصان میں رہ گئے (١١)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَلَمْ يَكُ يَنفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ﴾ ” جب انہوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان نے انہیں کچھ فائدہ نہ دیا۔“ یعنی اس حال میں ان کا ایمان انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا جب وہ ہمارا عذاب دیکھ لیں گے ﴿سُنَّتَ اللّٰـهِ﴾ ” یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور عادت ہے‘‘ ﴿الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ﴾ ” جو اس کے بندوں میں چلی آتی ہے۔“ یعنی ان جھٹلانے والوں کے بارے میں، جو اس وقت ایمان لاتے ہیں جب ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ ان کا ایمان صحیح ہے نہ ان کو عذاب سے نجات دلا سکتا ہے۔ یہ اضطراری اور مشاہدے کا ایمان ہے۔ وہ ایمان جو صاحب ایمان کو نجات دیتا ہے، اختیاری ایمان ہے، جو قرائن عذاب کے وجود سے پہلے پہلے، ایمان بالغیب ہے۔ ﴿وَخَسِرَ هُنَالِكَ﴾ ”اور خسارے میں پڑجاتے ہیں ایسے وقت میں“ جب ہم ہلاکت اور عذاب کا مزا چکھاتے ہیں ﴿الْكَافِرُونَ﴾ ” کافر لوگ“ جو اپنے دین، دنیا اور آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ آخرت کے گھر میں مجرد خسارہ ہی نہیں ہوگا بلکہ ایک ایسا خسارہ ہو گا کہ وہ نہایت شدید دائمی اور ابدی عذاب کے اندر، بدبختی میں گھرا ہوا ہوگا۔