سورة غافر - آیت 5

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

ان لوگوں سے پہلے قوم نوح اور ان کے بعد بہت سے گروہ پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں اور ہر قوم نے اپنے رسول کے ساتھ یہی ارادہ کیا کہ اسے گرفتار کرے اور بے اصل باتوں کا سہارا لے کرجھگڑا کرتے رہے کہ حق کو اس کی جگہ سے ہٹادیں آخرکار میں نے ان کو پکڑ لیا پھر دیکھ لو کہ میری سزا کیسی ہوئی ؟

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ڈرایا ہے جو آیات الٰہی کے ابطال کے لئے جھگڑتے اور بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے گمراہ قومیں کیا کرتی تھیں، مثلاً ﴿ قَوْمُ نُوحٍ ﴾ ” قوم نوح“ اور قوم عاد ﴿ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِهِمْ ﴾ ” اور ان کے بعد کی دوسری جماعتوں نے )بھی جھٹلایا(‘‘ جو حق کو نیچا دکھانے اور باطل کی مدد کرنے کے لئے جمع ہوگئے ﴿ وَ ﴾ ” اور“ ان کا یہ حال ہوگیا اور وہ اس بات پر اکٹھے ہوگئے کہ ﴿هَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ ﴾ ” ہر گروہ نے ارادہ کرلیا“ مختلف گروہوں میں سے ﴿ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ﴾ ” کہ وہ اپنے رسول کو گرفتار کرلیں۔“ یعنی اس کو قتل کردیں یہ انبیاء و مرسلین کے خلاف، جو اہل خیر کے قائد تھے، بدترین ہتھکنڈا تھا، جو صریح حق پر تھے جس میں کوئی شک و شبہ نہ تھا۔ انہوں نے انبیاء کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ کیا اس بغاوت، گمراہی اور بدبختی کے بعد اس عذاب عظیم کے سوا کچھ رہ جاتا ہے جس میں سے یہ کبھی نہ نکلیں گے؟ بنابریں ان کے لئے دنیاوی اور اخروی عذاب کے بارے میں فرمایا : ﴿ فَأَخَذْتُهُمْ ﴾ ” پھر میں نے انہیں پکڑ لیا“ یعنی ان کو تکذیب حق اور حق کے خلاف اکٹھے ہونے کے سبب سے اپنی گرفت میں لے لیا ﴿ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴾ ” پھر )دیکھ لو( ہماری سزا کیسی سخت تھی۔“ یہ سخت ترین اور بدترین عذاب تھا یہ ایک زور دار آواز تھی، پتھروں کو اڑاتی ہوئی طوفانی ہوا تھی، یا اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ ان کو اپنی گرفت میں لے لے یا سمندر کو حکم دیا کہ ان کو غرق کر دے، تب یہ مردہ پڑے کے پڑے رہ گئے۔