سورة آل عمران - آیت 106

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اس دن جب کچھ چہرے چمکتے ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ پڑجائیں گے۔ چنانچہ جن لوگوں کے چہرے سیاہ پڑجائیں گے ان سے کہا جائے گا کہ : کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ (٣٦) لو پھر اب مزہ چکھو اس عذاب کا، کیونکہ تم کفر کیا کرتے تھے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ اس دن عدل اور فضل کی بنیاد پر ملنے والی جزا و سزا کے اثرات بیان فرمائے ہیں۔ اس بیان کا مقصد ترغیب و ترہیب ہے۔ جس کا فائدہ خوف اور امید کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ﴾” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے“ وہ خوش نصیبوں اور نیکی کرنے والوں کے چہرے ہوں گے، جنہوں نے آپس میں الفت و محبت رکھی اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ﴿ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ ” اور بعض چہرے سیاہ ہوں گے“ وہ بدنصیبوں اور بدکاروں کے چہرے ہوں گے، جو اختلاف و افتراق پیدا کرنے والے تھے۔ ذلت و رسوائی کی وجہ سے ان کے دلوں کی جو کیفیت ہوگی، اس کے نتیجے میں ان کے چہرے سیاہ ہوجائیں گے۔ اور نیک لوگوں کو نعمتیں اور خوشیاں نصیب ہوں گی، ان کے اثرات ان کے چہروں پر ظاہر ہوں گے اور ان کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ﴾(الدھر :86؍11) ” اور انہیں تازگی اور خوشی پہنچائی“ ترو تازہ ہونے کا تعلق چہروں سے ہے، اور خوشی دلوں میں ہوتی ہے۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہے : ﴿وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ مَّا لَهُم مِّنَ اللَّـهِ مِنْ عَاصِمٍ ۖ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ﴾(یونس :10؍27) ” جنہوں نے گناہ کمائے تو ہر برائی کا بدلہ اس کے برابر ہے اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ انہیں اللہ سے کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ یوں ہوگا گویا ان کے چہروں پر رات کے تاریک ٹکڑے اوڑھا دیئے گئے ہیں۔ یہی لوگ آگ والے ہیں۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔“ ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ﴾ ” اور جن کے چہرے سیاہ ہوں گے“ انہیں ڈانٹ ڈپٹ اور زجر و توبیخ کے انداز سے کہا جائے گا : ﴿أَكَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ﴾ ” کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا“ یعنی تم نے ہدایت اور ایمان کے بجائے کفر وضلالت کو کیوں ترجیح دی؟ تم نے ہدایت والا راستہ چھوڑ کر گمراہی کا راستہ کیوں اختیار کیا؟ ﴿فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُونَ﴾ اب ” اپنے کفر کے بدلے عذاب کا مزہ چکھو“ تمہارے لائق صرف جہنم کا مقام ہے تم صرف ذلت و رسوائی کے مستحق ہو