وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ اے مومنو ! جن پر اللہ نے ایمان لانے اور اپنی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا ہے، تم میں سے ﴿أُمَّةٌ﴾ ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے ﴿يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ﴾ ” جو بھلائی کی طرف بلائے۔“ (خیر) ” بھلائی“ میں ہر وہ چیز شامل ہے جو اللہ سے قریب کرنے والی اور اس کی ناراضی سے دور کرنے والی ہو۔ ﴿وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ﴾” اور وہ نیک کاموں کا حکم کرے“ (معروف) اسے کہتے ہیں جس کا اچھا ہونا عقل اور شریعت کی روشنی میں معلوم ہوچکا ہو۔﴿ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ﴾” اور برے کاموں سے روکے“ (منکر) اسے کہتے ہیں جس کا برا ہونا عقل اور شریعت کے ذریعے سے معلوم ہوچکا ہو۔ اس میں مومنوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ان میں ایک ایسی جماعت موجود ہونی چاہئے جو لوگوں کو اس کی راہ کی طرف بلائے اور اس کے دین کی طرف رہنمائی کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے۔ اس جماعت میں وہ علماء بھی شامل ہیں جو لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، وہ مبلغ بھی جو دوسرے مذاہب والوں کو دین اسلام میں داخل ہونے کی اور بدعملی میں مبتلا لوگوں کو دین پر کار بند ہونے کی تبلیغ کرتے ہیں، اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے بھی اور وہ لوگ بھی شامل ہیں، جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ لوگوں کے حالات معلوم کرتے رہیں اور انہیں شرعی احکام مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کروائیں اور غلط کاموں سے روکیں مثلاً ماپ تول کے پیمانوں اور باٹوں کو چیک کریں، بازار میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دھوکا بازی سے اور لین دین کے ان معاملات سے روکیں جو شرعاً ناجائز ہیں۔ یہ سب کام فرض کفایہ ہیں۔ جیسے کہ آیت کریمہ کے الفاظ ﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ﴾ ” تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہئے“ سے ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی تم میں ایک جماعت ایسی موجود ہونی چاہئے جس سے مذکورہ بالا مقاصد حاصل ہوسکیں۔ یہ ایک جانا پہچانا اور مانا ہوا اصول ہے کہ جب کسی خاص کام کا حکم دیا جائے، تو اس میں ان تمام کاموں کا حکم شامل ہوتا ہے، جو اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ضروری ہوں۔ لہٰذا وہ تمام کام جن پر ان اشیاء کا وجود موقوف ہے، وہ سب ضروری ہیں اور اللہ کی طرف سے ان کا حکم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً جہاد کے لئے طرح طرح کے سامان تیار کرنا، جن سے دشمنوں کا قلع قمع کیا جا سکے اور اسلام کا نام بلند کیا جا سکے، وہ علم سیکھنا جس کی مدد سے نیکی کی طرف بلایا جا سکے۔ علم و رہنمائی کے لئے مدارس کی تعمیر، لوگوں میں شریعت نافذ کرنے کے لئے حکمرانوں کی قولی، عملی اور مالی امداد اور ایسے دوسرے کام جن پر ان امور کا دار و مدار ہے۔ یہ جماعت جو نیکی کی طرف بلانے، بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے لئے کمربستہ ہے، یہ خاص مومنین ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾ ” اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“ یعنی کامیاب ہیں جنہیں مطلوب حاصل ہوگا اور خطرناک نتائج سے محفوظ رہیں گے۔