إِذْ أَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
جب کہ وہ بھاگ کر ایک بھری ہوئی کشتی میں پہنچا
﴿إِذْ أَبَقَ ﴾ ” جب بھاگے“ یعنی اپنے رب سے ناراض ہو کر یہ سمجھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں محبوس کرنے کی قدرت نہیں رکھتا کشتی میں فرار ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے ناراضی کا سبب بتایا ہے نہ اس گناہ ہی کا ذکر فرمایا جس کا آپ نے ارتکاب کیا کیونکہ اس کے تذکرے میں ہمارے لئے کوئی فائدہ نہیں۔ ہمیں صرف اسی چیز میں فائدہ ہے جس کا ذکر کیا گیا کہ حضرت یونس علیہ السلام سے گناہ سر زد ہوا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے رسول ہونے کے باوجود سزا دی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کرب سے نجات دی، آپ سے ملامت کو دور کردیا اور آپ کے لئے وہ امور مقتدر کیے جو آپ کی اصلاح کا سبب تھے۔ جب آپ بھاگ کر ﴿إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ﴾ مسافروں اور سامان سے بھری ہوئی کشتی میں جا سوار ہوئے۔ کشتی پہلے ہی کھچا کھچ بھری ہوئی تھی جب آپ سوار ہوئے تو کشتی بوجھل ہوگئی۔ انہیں حاجت محسوس ہوئی کہ وہ سواریوں میں سے کسی سواری کو سمندر میں پھینک دیں مگر یوں لگتا ہے کہ کسی کو سمندر میں پھینکنے کے لئے اس کی کوئی امتیازی علامت نہ تھی، اس لئے انہوں نے قرعہ اندازی کی کہ جس کے نام قرعہ نکلے گا اسے سمندر میں پھینک دیا جائے گا یہ کشتی والوں کا انصاف پر مبنی فیصلہ تھا۔