وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ۗ وَمَن يَعْتَصِم بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
اور تم کیسے کفر اپناؤ گے جبکہ اللہ کی آیتیں تمہارے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں اور اس کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے؟ اور (اللہ کی سنت یہ ہے کہ) جو شخص اللہ کا سہارا مضبوطی سے تھام لے، وہ سیدھے راستے تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایا : ﴿وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّـهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ﴾ ” اور تم کیسے کفر کرسکتے ہو جب کہ تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول موجود ہے۔“ یعنی رسول تمہارے اندر موجود ہیں، وہ ہر وقت تمہیں رب کی آیتیں سناتے ہیں۔ یہ واضح آیات ہیں جو بیان کردہ مسائل پر قطعی یقین کا فائدہ دیتی ہیں اور یہ کہ ان سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں کسی بھی لحاظ سے شک کی گنجائی نہیں۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اسے بیان کرنے والا وہ انسان (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہے، جو تمام مخلوق میں سب سے افضل، زیادہ عالم، زیادہ فصیح، زیادہ مخلص و خیر خواہ اور مومنوں پر زیادہ شفیق، مخلوق کو ہر ممکن طریقے سے ہدایت دینے اور ان کی رہنمائی کرنے کا انتہائی شوق رکھنے والا ہے۔ اللہ کے درود و سلام نازل ہوں آپ کی ذات اقدس پر۔ آپ نے یقیناً خیر خواہی فرمائی اور پوری وضاحت سے اللہ کا دین پہنچا دیا۔ حتیٰ کہ کسی کو بات کرنے کی گنجائش نہ رہی اور نیکی کے کسی طلبگار کو تلاش کی ضرورت نہ رہی، آخر میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط کرے، اس پر توکل کرے، ہر برائی سے بچاؤ کے لئے اس کی قوت و رحمت کا سہارا تلاش کرے اور ہر خیر کے لئے اس سے مدد طلب کرے ﴿فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ ” تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھا دی گئی“ جو مطلوب منزل تک پہنچانے والی ہے۔ کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع بھی کی، اور اللہ کا سہارا بھی حاصل کیا۔