سورة الصافات - آیت 102

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب اسماعیل ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو انہوں نے (ایک دن اسماعیل سے) کہا میں نے خواب دیکھا، گویا تمہیں (راہ حق میں) ذبح کررہا ہوں (میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ کیا ماجرا ہے) تم اسپر غور کرو کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ بیٹے نے (بلاتامل) کہا (اس خواب سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کی جانب سے ایک اشارہ ہے) پس آپ حکم الٰہی کو پورا کیجئے مجھ آپ انشاء اللہ صبر کرنے والوں اور (ثابت قدموں) میں پائیں گے (١١)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿فَلَمَّا بَلَغَ﴾ ” پس جب پہنچا“ لڑکا ﴿ مَعَهُ السَّعْيَ﴾ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچ گیا اور اس کی اتنی عمر ہوگئی، جب وہ غالب طور پر اپنے والدین کو بہت محبوب ہوتا ہے، اس کی دیکھ بھال کی مشقت کم اور اس کی منفعت شروع ہوچکی ہوتی ہے تو آپ نے اس سے کہا ﴿إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ ﴾ یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے حکم دے رہا ہے کہ میں تجھے ذبح کروں اور انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔ ﴿فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ﴾ ” پس تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟“ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ لازمی امر ہے۔ ﴿قَالَ﴾ اسماعیل علیہ السلام نے اپنے باپ کی اطاعت، ثواب کی امید کرتے ہوئے نہایت صبر کے ساتھ اپنے رب کی رضا پر راضی ہو کر کہا : ﴿يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ﴾ ابا جان ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس کام کا حکم دیا ہے اسے کر گزریئے ﴿ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللّٰـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ﴾ ”اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔“ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنے والد محترم کو آگاہ کیا کہ وہ اپنے نفس کو صبر پر مجبور کریں گے اور اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے مقرون کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے بغیر کوئی چیز وجود میں نہیں آسکتی۔