قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
آپ کہیے کہ اللہ نے سچ کہا ہے، لہذا تم ابراہیم کے دین کا اتباع کرو جو پوری طرح سیدھے راستے پر تھے، اور ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اللہ کی خدائی میں کسی کو شریک مانتے ہیں۔
اس لئے فرمایا : ﴿ قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ﴾” کہہ دیجیے اللہ سچا ہے“ ان خبروں میں بھی جو اس نے بتائی ہیں اور ان احکام میں بھی جو اس نے نازل کئے ہیں۔ اللہ کی طرف سے رسول کو اور اس کے رسول کے متبعین کو حکم ہے کہ زبان سے بھی کہیں ” اللہ سچا ہے“ اور ان یقینی دلائل کی بنیاد پر دل میں بھی یہ عقیدہ رکھیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص کو سمعی اور عقلی تفصیلی دلائل کا علم زیادہ ہوتا ہے، اس کا اللہ کے سچا ہونے پر زیادہ یقین ہوتا ہے۔ پھر حکم دیا کہ اپنے جد امجد حضرت ابراہیم کے طریقے کیپ یروی کرتے ہوئے توحید اختیار کریں اور شرک سے اجتناب کریں۔ کیونکہ سعادت و خوش نصیبی کا دار و مدار توحید کو اختیار کرنے اور شرک سے پرہیز کرنے پر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہودی وغیرہ جو ابراہیم کے طریقے پر نہیں، وہ مشرک ہیں موحد نہیں۔ جب ابراہیم کے اس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا کہ توحید اختیار کریں اور شرک سے بچیں، تو اس کے بعد یہ حکم دیا گیا کہ ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرتے ہوئے بیت اللہ کا بھی احترام کریں یعنی حج اور عمرہ وغیرہ ادا کریں۔