سورة سبأ - آیت 31

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَن نُّؤْمِنَ بِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَلَا بِالَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ مَوْقُوفُونَ عِندَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ الْقَوْلَ يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کفار کہتے ہیں (٩) کہ ہم ہرگز اس قرآن کو نہیں مانیں گے اور نہ اس سے پہلے کی کتابوں کو تسلیم کریں گے کاش آپ اس وقت ان کا حال دیکھیں جب یہ ظالم اپنے رب کے حضور کھڑے کیے جائیں گے ان میں سے ایک دوسرے پر بات کوٹالتا ہوگا جو لوگ دنیا میں کمزور بنادیے گئے اور وہ بڑے بننے والے لوگوں سے کہیں گے اگر تم نہ ہوتے تو ہم یقینا مومن ہوتے۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ عذاب کے لئے جلدی مچانے والوں کے لئے عذاب کا جو وعدہ کیا گیا ہے اپنے وقت پر اس کا پورا ہونا ضروری ہے۔ یہاں فرمایا کہ اگر آپ اس روز ان کا حال دیکھیں، جب یہ اپنے رب کے حضور کھڑے ہوں گے، سردار اور کفر وضلالت میں ان کی پیروی کرنے والے اکٹھے کھڑے ہوں گے، تو آپ کو بہت بڑا اور انتہائی ہولناک معاملہ نظر آئے گا اور آپ دیکھیں گے کہ وہ کیسے ایک دوسرے کی بات کو رد کرتے ہیں: ﴿يَقُولُ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا﴾ ” وہ لوگ جو کمزور کئے گئے تھے وہ کہیں گے“ یعنی متبعین ﴿لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا ﴾ ” ان سے جنہوں نے تکبر کیا۔“ اس سے مراد قائدین کفر ہیں ﴿لَوْلَا أَنتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ﴾ ” اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور مومن ہوتے۔“ مگر تم ہمارے اور ایمان کے درمیان حائل ہوگئے، تم نے کفر کو ہمارے سامنے مزین کیا اور تمہاری پیروی میں ہم نے کفر کو اختیار کیا۔ ایسا کہنے میں ان کا مقصود یہ ہوگا کہ ان کی بجائے عذاب ان سرداروں کو دیا جائے۔