سورة سبأ - آیت 19

فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

مگر انہوں نے (زبان حال سے) کہا اے ہمارے رب ہمارے سفروں کی مسافتیں لمبی کردے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا آخرکار ہم نے ان کو قصہ پارینہ بناکررکھ دیا اور ان کو بالکل تتربتر کردیا، بے شک اس واقعہ میں ہر صبور وشکور شخص کے لیے (بڑی عبرت آموز) نشانیاں ہیں (٧)۔

تفسیر السعدی - عبدالرحمٰن بن ناصر السعدی

﴿وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ﴾ اور اللہ تعالیٰ اور اس کی نعمتوں کا انکار کر کے انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی نعمت کے ذریعے سے، جس نے انہیں سرکش بنا دیا تھا، ان کو سزا دی کہ ان کے اس بند کو توڑ دینے والا منہ زور سیلاب بھیجا جس نے ان کے اس بند کو توڑ کر ان کے باغات کو تباہ کردیا۔ ان کے پھل دار درختوں والے یہ باغات جھاڑ جھنکار میں بدل گئے، لہٰذا فرمایا : ﴿ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ﴾ ” اور ہم نے ان کو ان کے دو باغوں کے بدلے دو ایسے باغ دیے جن کے میوے“ یعنی بہت تھوڑا پھل جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا تھا ﴿خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ﴾ ” بد مزہ تھے اور جن میں کچھ تو جھاؤ تھا اور تھوڑی سی بیریاں۔“ یہ سب معروف درخت ہیں۔ یہ سزا ان کے عمل کی جنس سے تھی یعنی جس طرح انہوں نے شکر حسن کو کفر قبیح میں بدل ڈالا سی طرح ان کی وہ نعمتیں بدل دی گئیں جن کا گزشتہ سطور میں ذکر کیا گیا ہے، اس لئے فرمایا : ﴿ذٰلِكَ جَزَيْنَاهُم بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجَازِي إِلَّا الْكَفُورَ﴾” یہ ہم نے انہیں ان کی ناشکری کی سزا دی اور ہم ناشکرے ہی کو سزا دیا کرتے ہیں۔“ یعنی ہم جزا کے طور پر عذاب۔۔۔ جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے۔۔۔ اس شخص کے سوا کسی اور کو نہیں دیتے جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا ہو اور اس کی عطا کردہ نعمت پر اتراتا رہا ہو۔ جب ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ٹوٹ پڑا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر گئے جبکہ اس سے پہلے وہ اکٹھے تھے۔ ہم نے ان کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا۔ لوگ ان کے بارے میں دن رات گفتگو کرتے ہیں۔ وہ پراگندگی میں ضرب المثل بن گئے اور ان کی مثال دی جانے لگی، چنانچہ کہا جاتا ہے :(تَفَرَّقُوا اَیْدِیْ سَبأً) ” وہ ایسے بکھر گئے جیسے قوم سبا بکھر گئی تھی۔“ ہر شخص ان کے قصے بیان کرتا تھا، مگر عبرت سے صرف وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ ﴾ ” بلا شبہ اس میں ہر صبر کرنے والے اور شکر گزار بندے کے لئے نشانیاں ہیں۔“ ناپسندیدہ امور اور سختیوں پر صبر کرنے والا، جو ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر برداشت کرتا ہے، ان پر ناراضی کا اظہار نہیں کرتا بلکہ ان پر صبر کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اقرار اور اعتراف کر کے اس پر اس کا شکر ادا کرتا ہے، منعم کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے اور اس نعمت کو اس کی اطاعت میں صرف کرتا ہے۔ جب ان کا قصہ سنا جاتا ہے کہ ان کے کرتوت کیا تھے اور ان کے ساتھ کیا گیا تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کو یہ سزا اس بنا پر دی گئی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناسپاسی کی تھی، نیز یہ اس پر بھی دلیل ہے کہ جو کوئی اس قسم کا رویہ اختیار کرے گا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا۔ (1) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ ’’شکر“ اللہ تعالیٰ کی نعمت کی حفاظت اور اسی کی ناراضی کو دور کرتا ہے۔ (٢) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول اپنی خبر میں سچے ہیں۔ (٣) ان آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ جزا حق ہے جیسا کہ اس کا نمونہ دنیا میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ سبا ایسی قوم ہے جس کی وجہ سے شیطان نے اپنا یہ دعویٰ سچ کر دکھایا جیسا کہ اس نے کہا تھا : ﴿قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ﴾ تیری عزت کی قسم ! میں ان سب کو بدر راہ کر کے رہوں گا، سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ “ یہ شیطان کا گمان تھا جو یقین پر مبنی نہ تھا کیونکہ شیاطن غیب کا علم جانتا ہے نہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خبر ہی آئی تھی کہ وہ ان سب کو بد راہ کرے گا سوائے ان مستثنیٰ لوگوں کے۔ پس یہ لوگ اور ان جیسے دیگر لوگ، جن کے بارے میں شیطان کا گمان سچا ثابت ہوا، اس نے ان کو اپنے راستے پر چلنے کی دعوت دی اور ان کو بہکایا﴿فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ” تو مومنوں کی ایک جماعت کے سوا وہ اس کے پیچھے چل پڑے۔“ یعنی جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری نہیں کی تو یہ لوگ ابلیس کے گمان میں داخل نہیں ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے کہ قوم سبا کا قصہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر ختم ہوگیا ہو: ﴿إِنَّ فِي ذٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ﴾ اور پھر اس آیت کر یمہ سے دوبارہ کلام کی ابتدا کی ہو ﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ﴾ ” اور تحقیق شیطان نے ان کے بارے میں (اپنا گمان) سچ کر دکھایا“ یعنی تمام انسانوں کی جنس کے بارے میں تب یہ آیت کریمہ، ان تمام لوگوں کے بارے میں عام ہے جنہوں نے شیطان کی پیروی کی۔